کسی بھی ملک کے لئے آزاد خارجہ پالیسی وہ اہم عنصر ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر غیر جانبداری کا اثر ان دنوں زیادہ نظر آرہا ہے اور جہاں چین کے ساتھ کلیدی تعلقات ہیں وہاں امریکہ‘ روس اور یورپی یونین کے ساتھ بھی متعدد شعبوں میں قریبی روابط ہیں جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو کچھ عرصے سے یہاں پر سردمہری کے سائے گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ امریکہ ہمارے خطے میں اپنی موجودگی کے حوالے سے کافی پریشان ہے، کیونکہ افغانستان میں طالبان کی واپسی اور امریکہ کی پسپائی کے بعد سے امریکہ کا اثر و رسوخ افغانستان سے ختم ہوچکا ہے، امریکہ کیلئے ہمارا خطہ ہر لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے، یہاں پر چین ہے جو کہ امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت کو چیلنج کرنا شروع کر چکا ہے اسی طرح وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی امریکہ کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کبھی تھی جس کی وجہ روس کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جارحانہ رویہ ہے۔
ان حالات میں امریکہ کی ہمارے خطے میں موجودگی فقط ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنے زیرِ اثر رکھے، یہاں یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات گذشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی کے عرصے سے خراب رہتے چلے آرہے ہیں۔ امریکہ کی پلاننگ کے حساب سے ان کا یہ بالکل بھی خیال نہیں تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی دوبارہ ضرورت پڑے گی کیونکہ امریکہ نے افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں افغان آرمی پر اربوں ڈالروں کی انوسٹمنٹ کی، ان کی آرمی کو جدید اسلحے سے لیس کیا، افغانستان کیلئے باقاعدہ ائیر فورس بنائی، یہ آرمی اور ائیر فورس کو امریکہ نے جہاں طالبان کو شکست دینے کیلئے بنائی تھی وہاں اس کا مقصد پاکستان کیلئے سینکڑوں کلو میٹر پر محیط سرحد پر ایک نیا اور مسلسل دردِ سر بنانا بھی تھا۔ لیکن امریکہ کی یہ پلاننگ مکمل طور پر ناکام ہوئی اور اس کی بنائی ہوئی افغان آرمی اور ائیر فورس عملی طور پر چند ہی گھنٹوں میں طالبان کے آگے ڈھیر ہوگئی۔
ان حالات میں امریکہ کو خطے میں دوبارہ اپنا اثر و رسوخ بنانے یا قائم رکھنے کیلئے پاکستان کی دوبارہ ضرورت پڑ گئی ہے۔ امریکہ واپس پاکستان کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے، اس مقصد کیلئے امریکہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔عمران خان کے امریکہ کو absolutely notکہنے کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ جس کو مذید تقویت وزیرِ اعظم کے دورہ روس نے دی، امریکہ نے پاکستان پر واضح کیا کہ پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا ہوگی لیکن پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کا راستہ اپنائے رکھا‘ اور دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کو آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی عالمی برادر ی میں خصوصی مقام حاصل ہوا ہے۔حکومت عمران خان کی رہتی ہے یا کسی اور کی آتی ہے۔ اصل مقصد یہی ہونا چاہئے کہ ملک کی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کا تسلسل جاری رہے۔ دنیا کے تمام ممالک آپس میں اس طرح جڑ گئے ہیں کہ ایک ملک میں پیش آنے والے واقعات دوسرے ملک پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ایسے میں فعال خارجہ پالیسی کئی حوالوں سے اہم ہے۔