غالباً دو سے تین سال پہلے کی بات ہے، سویڈن کے شہر Vasterasمیں ہمارے ایک پاکستانی دوست کے تین بچے مقامی حکومت کی سوشل سروسز نے اپنی تحویل میں لے لئے تھے، جس سے بچوں کے والدین بہت ہی دلبرداشتہ اور پریشان تھے، سوشل سروسز کا خیال تھا کہ والدین اپنے بچوں کا صحیح طریقے سے خیال نہیں رکھ پا رہے تھے جس کی وجہ سے ان کے بچے حکومتی تحویل میں لے لئے گئے اور بچوں کے والدین کو عدالت سے رجوع کرنے کیلئے کہہ دیا تھا۔سوشل سروسز کا کام عوامی سطح پر حکومت کی جانب سے معاشرے کے کمزور طبقے کی مدد کرنا ہوتا ہے، یہ مدد مالی اور اخلاقی دونوں سطح پر کی جاتی ہے، ان کا کام گھریلو تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھانا اور والدین کے بچوں کے ساتھ رویے پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ صبح کا وقت تھا اور میں اپنا کام معمول کا کام شروع کرنے والا ہی تھا کہ میرے فون پر دوست کی کال آئی، بے چارہ کافی پریشان تھا اور ملنا چاہ رہا تھا، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مل کر ہی تفصیل سے بتائے گا، لہٰذا کچھ ہی دیر بعد وہ میرے گھر پہنچا اور پورا واقعہ سنایا جس کی تفصیل قارئین کی نذرکر رہا ہوں! مذکورہ دوست کے ہاں دو جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی، اس کی بیوی ہسپتال میں تھی، ایک ہفتے بعد انہیں ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی جبکہ ان کے دو نومولود اور ایک6سالہ بچے کو سوشل سروسز نے اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا، سوشل سروسز کے ذمہ داران نے بچوں کے والدین کو ایک تفصیلی فیصلہ ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیا تھا، دوست کو میری مدد اس لیے پڑ گئی تھی کہ مجھے سویڈش زبان قدرِ بہتر آتی ہے اور اس کا خیال تھا کہ میں اس صورتحال میں ان کی بات حکام تک صحیح طور پر پہنچا سکتا تھا، اس کی پریشانی کا عالم دیکھ کر مجھے بھی لگا کہ اپنا ہر کام چھوڑ کر ان کی مدد کرنا زیادہ ضروری ہے۔ لہٰذا میں نے دوست سے سوشل سروسز کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کی کاپی مانگی تو وہ فی الوقت اس کے پاس موجود نہیں تھی، اس وجہ سے ہم ان کے گھر چلے گئے، اس کے گھر پہنچ کر دیکھا کہ بچوں کی ماں بیچاری بہت ہی برے حال میں تھی، انہیں اس حال میں دیکھ کر اور بھی دُکھ ہوا۔ بحرحال بچوں کے حکومتی تحویل میں لینے سے متعلق تحریری فیصلہ پڑھا جس کے بعد ہی معلوم ہوا کہ بچوں کو واپس حاصل کرنا کس قدر ممکن یا ناممکن ہو سکتا تھا۔ فیصلہ پڑھنے کے دوران اس بات کا اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ بچوں کو واپس حاصل کرنے کے اس تحریری فیصلے میں ایک سے زائد نکات موجود تھے لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ جمعہ کا دن تھا اور جمعے کے دن سویڈن میں آدھا دن ہی کام کیا جاتا ہے جبکہ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے، لہٰذا آنے والے دو دن میرے دوست اور اس کی فیملی کیلئے بہت کھٹن اور انتظار طلب تھے، لیکن پھر بھی ہمیں اتنا وقت مل گیا تھا کہ ہم سوشل سروسز کے دفتر گئے اور پیر کے دن کیلئے ان کے ساتھ ملنے کا وقت مقرر کر لیا۔میٹنگ شروع ہوتے ہی سوشل سروسز کی طرف سے موجود تینوں خواتین نے بچوں کے والدین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ قانون کی پاسداری کرنا ان کا فرض ہے۔ ان کے اظہارِ ہمدردی کے بعد میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کا لکھا ہوا تحریری فیصلہ وہ خود ہی ہمیں پڑھ کر سنائیں جس کے بعد ہی ہم اپنا جواب ان کے سامنے رکھیں گے۔تحریری فیصلے میں دو بڑی وجوہات لکھی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ نومولود بچوں (ایک بچہ ایک بچی) کی آنکھوں اور چہرے پر رنگ مل دیا گیا تھا۔جوکہ نہایت ہی پریشان کن امر تھا۔ اس لئے طبی عملے کو شک پڑگیا تھا کہ بچوں کی ماں شاید کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے لہٰذا یہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے بچے صحیح طریقے سے پال سکے، اسی لیے سوشل سروسز کی جانب سے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ سوشل سروسز والوں کی جانب سے جب ان کا پورا فیصلہ سنایا گیا تو ہمیں جواب کے طور ان کے فیصلے کو غلط ثابت کرنا تھا اور یہی واحد ذریعہ تھا کہ بچے اپنے والدین کوواپس مل جاتے۔ ان کے اعتراض کے جواب میں مجھے ثابت کرنا پڑا کہ پاکستانی معاشرے میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے بچوں کی نظر صاف اور واضح ہوتی ہے، یہ ثابت کرنے کیلئے میں نے انٹرنیٹ سے تصویریں وغیرہ دکھائیں۔جواب سننے کے بعد سوشل کی جانب سے موجود خواتین میں ایک کا کہنا تھا کہ جواب قابلِ فہم ہے لیکن انہیں (والدین) یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ اب پاکستان میں نہیں بلکہ سویڈن میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہاں انہیں یہاں کے قوانین کے مطابق رہنا ہوگا۔ اس خاتون کے اس موقف نے ہمارا کیس مزید آسان بنادیا تھا۔ میں اس خاتون سے سوال کیا کہ میرے دوست کی بیوی ایک سال قبل پاکستان سے سویڈن آئی ہے، کیا آپ لوگوں یا پھر ہسپتال کے عملے کی جانب سے انہیں یہ قانون سمجھایا گیاتھا کہ وہ کس طرح اس قانون کی پیروی کرے گی؟ یہ سوال سن کر سوشل سروسز کی تینوں خواتین نے حیران ہو کر پہلے ہماری طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر کہا کہ نہیں یہ ہماری غلطی ہے ہمیں چاہئے تھا کہ ہم پہلے انہیں سمجھاتے، یہ کہہ کر تینوں نے ہمیں 5منٹ انتظار کا کہا اور خود ایک دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ چند ہی منٹ بعد وہ واپس آئیں اور کہا انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا ہے، اب بچے اپنے والدین کے پاس رہیں گے لیکن 2مہینے تک انہیں ایک تربیتی پروگرام میں سے گزرنا پڑے گا جس دوران ان پر نظر رکھی جائے گی کہ آیا یہ ہمارے معاشرے میں اپنے بچے پالنے کے قابل ہیں یا نہیں، اگر انہوں نے ثابت کردیا کہ یہ اپنے بچے بخوبی پال سکتے ہیں تو پھر یہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جاسکتے ہیں اور اگر یہ ایسا ثابت کرنے میں ناکام ہوئے تو پھر ان کے بچے انہیں کبھی نہیں ملیں گے، کیونکہ بچے ملک کا سرمایہ ہیں اور ان سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے جس میں کوتاہی بالکل بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ سوشل سروسز کے اس فیصلے کے بعد اگلے ہی روز دوست اور اس کی بیوی کو ان کے بچوں سمیت سوشل سروسز کے تربیتی سینٹر میں 2ماہ کیلئے بھیج دیا گیا، لیکن دونوں نے 2ہفتے بعد ہی اپنی کار کردگی سے سوشل سروسز کو مطمئن کر لیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرسکتے ہیں، تیسرے ہی ہفتے انہیں تربیتی سینٹر سے واپس اپنے گھر منتقل کردیا گیا اور ان کے بچے انہیں واپس مل گئے۔اس واقعہ سے ہمیں ایک ہی سبق ملتا ہے کہ بچے ہی دراصل کسی بھی معاشرے کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں ان کی صحیح پرورش کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ انہی بچوں نے کل کا معاشرہ کھڑا کرنا ہے۔