امریکی سینٹ میں پاکستان کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے جو بل پیش کیا گیا ہے وہ امریکہ کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش ہے۔امریکہ اوریورپ کے بیشتر ممالک میں پروپیگنڈے کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔اسی حوالے چند دن پہلے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا، مباحثے کے دوران مجھ سے یکے بعد دیگرے متعدد سوالات کیے گئے ۔پورے مباحثے کے دوران میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ پاکستان کے حوالے سے جتنی بھی باتیں کی جا رہی ہیں یہ صرف الزامات کی حد تک ہی ہیں کیونکہ ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے نہ تو اٖفغانستان کی سابقہ حکومت کے پاس کوئی شواہد موجود تھے اور نہ ہی آج الزامات لگانے والوں کے پاس کوئی شواہد ہیں، بلکہ شواہد تو دُور کی بات پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات عقلی اور منطقی اعتبار سے بھی درست ثابت نہیں ہوتے، اگر ان الزامات کا جائزہ لیا جائے تو عقلی طور پر ایسا لگتا ہے کہ الزامات لگانے والے پاکستان پر تنقید کی بجائے پاکستان کی تعریف کرتے پھر رہے ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے دُنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت امریکہ کو بھی شکست دی، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی نیٹو ممالک جن میں یورپ کے طاقتور اور امیر ترین ممالک بھی بے بس کیا،الزام کی نوعیت دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان اس قدر طاقتور ملک ہے کہ اُس نے افغانستان میں ہونے والی گذشتہ دو دہائیوں پر محیط جنگ میں ہر محاذ کواس قدر اپنے کنٹرول میں رکھا کہ اول تو جنگ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا بلکہ امریکہ کوتھکادینے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھی مجبور کیا، اس کے بعدپاکستان نے امریکہ سے زبردستی طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کروائے اور افغانستان سے انخلاء کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچانے پر بھی امریکہ کو مجبور کیا اور تو اور پاکستان نے طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے پہلے ہی افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کو بھی افغانستان سے بھاگنے کی طرف مائل کیا کہ اس کے بھاگ جانے میں افغانستان کی حقیقی کامیابی پنہاں ہے اور دوسری جانب پاکستان نے افغانستان کی 3لاکھ سے زائد فوج جو کہ جدید اسلحہ سے لیس تھی کو بھی کہا کہ آپ کو لڑنے کی ضرورت نہیں، لڑائی کرنا بُری بات ہے، اس لیے آپ اچھے بچے بن کر بھاگ جائیں تاکہ طالبان افغانستان کر قبضہ کرسکیں اور پوری ملک پر حکومت بنا سکیں، یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اس قدر بے تکے الزامات لگانے والوں کو کسی بھی معیار پر سنجیدہ لیا جاسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کر رکھا تھا جس کے خلاف طالبان نے ایک طویل جنگ لڑی، حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اُس کے نیٹو اتحادی افغانستان میں ایک صاف اور شفاف حکومت بنانے میں ناکام رہے جو افغان عوام کی حقیقی فلاح کیلئے کام کرتی، کیونکہ اگر ایسا کیا ہوتا توافغانستان کے لوگ آئے روز طالبان مخالف ہوتے جاتے اور اُس صورت میں طالبان کبھی بھی افغانستان پر قابض ہونے کی پوزیشن میں نہ آتے کہ عوامی حمایت کے بغیر ایسا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوتا۔مباحثے کے دوران میں مجھ سوال کرنے والے دوست کو میرا نقطہ نظر سُن کر یقین ہوگیا کہ پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات واقعی کمزور ہیں بلکہ اُس نے میرے موقف کومکمل طور پر تسلیم بھی کیا لیکن اتنا ہی کافی نہیں کیونکہ ایک مباحثہ کسی بھی طور پوری رائے عامہ کو تبدیل نہیں کرسکتا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی جانب سے بطورِ ریاست پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کا ہر سطح پر بھرپور جواب دیا جاتا رہے تاکہ پاکستان کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں عوامی سطح پر جو سوالات کھڑے ہو رہے ہیں ان کے مدلل جوابات دیئے جاسکے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی لیڈرشپ باالخصوص ملک کے وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنے انٹرویوز کے دوران بخوبی دے رہے ہیں۔ اور اس کے اثرات بھی نظر آرہے ہیں کیونکہ بہت سے حلقوں میں پاکستان کے موقف کو پذیرائی مل رہی ہے۔