عام طور پر کسی بھی حکومت کیلئے اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کو دکھانے کیلئے تین سال کی مدت کافی ہوتی ہے، اور آخری دو سال کے دوران الیکشن کی تیاری کرتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں بھی اپنی ساکھ بحال کرنے اور عوام سے رابطے استوار کرنے کے لئے حکومت کے چوتھے سال سے متحرک ہوتی ہیں۔اس حساب سے دیکھیں تو اب نئے انتخابات کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ باقی دنیا کیلئے انتخابی تیاری عوام سے رابطہ کی حد تک محدود ہوتی ہے، مگر ہمارے یہاں حصول اقتدار کیلئے کئی حوالوں سے تیاری کرنا پڑتی ہے۔موجودہ حکومت کے قیام کے وقت اپوزیشن جماعتیں منتشر تھیں، اسی لیے سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر، وزیراعظم اور صدر مملکت کے انتخاب پر مسلم لیگ ن اور پی پی پی الگ الگ پلیٹ فارم پر اور مختلف امیدواروں کی حمایت کر رہی تھیں۔اس سے حکومتی پارٹی کو موقع مل گیا اور وہ مجموعی طور پر معمولی برتری کے باوجود، واضح اکثریت سے جیت گئی۔لیکن کچھ عرصہ بعد اپوزیشن متحد ہوگئی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرلیا اگرچہ اس میں نو سیاسی جماعتیں شامل تھیں، لیکن پارلیمانی نمائندگی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علما اسلام ہی اصل سیاسی قوتیں تھیں۔اس پلیٹ فارم سے کئی شہروں میں بڑے بڑے جلسے کیے گئے۔لیکن اتحاد کے قیام کے وقت حکومت کے خاتمے کیلئے جو لائحہ عمل تیار کیا گیا، اس میں جلسوں کے علاوہ اسلام آباد میں دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کے آپشن بھی شامل تھے، پی پی پی شروع دن سے ہی استعفوں کے خلاف تھی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی کی تجویز دے رہی تھی۔اس کیلئے پی ایم ایل این تیار نہیں تھی۔ اصل جھگڑا سینیٹ انتخابات میں شروع ہوا، جب پیپلز پارٹی نے سیدیوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا کر چیئرمین سینٹ کا متفقہ امیدوار بھی بنوا لیااس پر دونوں جماعتوں میں دوریاں بڑھ گئیں، ان اختلافات پر پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس سے اپوزیشن سیاست کو دھچکا لگاجب کہ حکومت کو ریلیف مل گیا۔پیپلزپارٹی نے زبانی کلامی تو حکومت کو خوب رگڑے دئیے، لیکن سندھ حکومت کے ذریعہ تعلقات کار بھی بحال رکھے۔البتہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا۔سابق وزیراعلی ثنااللہ زہری اور ن لیگ کے صوبائی صدر جنرل عبدالقادر بلوچ سمیت کئی اہم لیڈر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔اس شمولیتی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ بلوچستان کا آئندہ وزیراعلی ایک جیالا ہوگا۔آئندہ کی بات تو خیر ابھی کسی کو معلوم نہیں لیکن فوری طور پر پی پی پی کو سیاسی برتری حاصل ہوگئی ہے۔اس کا موثر جواب دینے کے لیے مسلم لیگ نون نے بھی تیاری شروع کر دی ہے اور بلوچستان سے پیپلزپارٹی کے سابق صدر اور سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں پارٹی نمائندگی کرنے والے سردار فتح محمد حسنی نے گزشتہ دنوں شہباز شریف سے ملاقات کی اور نون لیگ میں شمولیت کیلئے گفت و شنید کی۔