بڑوں کی جنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچ کے اختلاف نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کی سربراہی روس نے لے لی اور دوسرے کی امریکہ نے۔ یہ سرد جنگ کئی سالوں تک جاری رہی اور کسی نہ کسی روپ میں آج بھی جاری ہے۔ گو اس میں وہ شدت تونہیں رہی کہ جو کچھ عرصہ پہلے تھی کہ جب روس ایک طرف اور امریکہ دوسری جانب اس جنگ کی سربراہی کر رہے تھے۔ کمیونزم نے جو روس میں غلبہ حاصل کیا تو امریکہ اس کے خلاف کھڑ اہو گیا اور ایک طرف روس کی حمایت میں ممالک آ گئے اور دوسری جانب امریکہ کے حامی ممالک اکٹھے ہو گئے اور دنیا ایک سرد جنگ میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک عرصہ تک تویوں لگتا تھا کہ روسی حمایت والے اور امریکی حمایت والے ممالک ایک بڑی جنگ میں ملوث ہو جائیں گے۔ ابھی ابھی دنیاا یک بڑی عالمی جنگ سے فارغ ہوئی تھی اور شائد کسی اور عالمی جنگ کے لئے تیار نہیں تھی یا کسی دوسری عالمی جنگ کے قابل نہیں تھی اس لئے یہ جنگ ایک سرد جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ دنیا ایک طرف روسی حمایت میں اکٹھی ہوئی تو دوسری جانب ایک بڑی تعداد نے امریکہ کی چھتری تلے اکٹھی ہو گئی۔ ایک بڑی سرد جنگ کا آغاز ہو گیا مگر یہ جنگ عملی شکل اختیار نہ کرسکی اور شاید پچھلی بڑی دو عالمی جنگوں کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے یہ جنگ ابھی تک زبانی کلامی ہی دکھائی دیتی ہے اور شائد اسی طرح رہے اس لئے کہ دنیا دو بڑی عالمی جنگوں کا مزا چکھ چکی ہے کہ جس نے دنیا کیایک بہت بڑے حصے کو متاثر کیا اور لا کھوں کروڑوں جانوں کا نذرانہ لے کر بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور دنیا دوبڑے حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اب روس کی جگہ چین نے لے لی ہے اور دیکھا جائے تو دونوں ممالک نے امریکہ کے مقابلے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے۔ چین اور روس نے یورپ اور ایشیاء میں اپنے ساتھ ممالک کو ملا لیا ہے اور امریکہ کا بلاک تو پہلے سے موجود ہے۔ یعنی کسی وقت جس طرح دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی اس میں چین نے بھی انٹری کر دی اور چین ایک تیسری بڑی طاقت کے طور پر سامنے آگیا۔ گو چین اور روس ایک ہی طرح کے طرز حکومت کے حامی ہیں مگر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھی رہے ہیں۔مگر اس کے باوجو دنیا اس قدر سیانی ہو گئی ہے کہ کسی بڑی جنگ کیلئے تیار نہیں ہے۔ جس طرح دو بڑ عالمی جنگوں نے دنیا میں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اور اس کا کوئی فائدہ کسی بھی طاقت کو حاصل نہیں ہوا ہے دنیا نے یہ جان لیا ہے کہ اب ہتھیاروں کی جنگ کو ا س دنیاسے رخصت کر دینا چاہئے اور اب جنگ کے طریقہ بدل چکا ہے اور اب جنگ ہتھیاروں کی بجائے لفظوں اور تقریروں اور اقتصادیات میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس میں ایک جنگ کی سربراہی امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور دوسری کا چین کے ہاتھ میں کیونکہ ر روس کی کمزوری نے اس جنگ کو چین کی جانب منتقل کر دیا ہے۔ مگر چین چونکہ خود کو اقتصادی طور پر تقویت دینے میں مشغول ہے اس لئے وہ لفظی جنگ میں بھی اس طرح حصہ نہیں لے رہا کہ کسی کے مقابل آجائے۔ وہ خاموشی سے خودکو ایک اقتصادی قوت بنانے میں مشغول ہے اور در اصل دنیا میں اب طاقت اقتصادیات کی ہو گی۔ یہاں اب فوجی قوت سے زیاد اقتصادی قوت کا مقابلہ ہے۔ روس اور امریکہ تو پہلے سے اقتصادی طور پر مستحکم ہیں اور چین اب اس کوشش میں ہے کہ وہ بھی اقتصادی طو ر پر ایک دیو بن جائے۔ مگر چین کی بڑھتی ہوئی آبادی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ چین کو اپنی آبادی کو اقتصادی طو ر پر مستحکم کرنے کا مسئلہ در پیش ہے مگر اس کے باوجود چین تیزی سے اقتصادی استحکام کی جانب رواں دواں ہے اور اس نے وہ مقام پا لیا ہے جس کیلئے اقوام طویل عرصہ گزارتی ہیں۔کیونکہ چینی جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں تو وہ حاصل کر لیتے ہیں بڑی آبادی کے باوجود انہوں نے جس طرح ترقی کی ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ جہاں ان کی آبادی کی بات ہے تو وہ اس کیلئے اپنے ریسورسز کو بھی تیزی سے بہتر کر تے گئے۔ یوں تو بڑی طاقتیں اپنی اقتصادیات کو بہتر کرتی جا رہی ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے ممالک اس جنگ میں دن بدن پیچھے ہی رہتے جا رہے ہیں۔ کہ ان کے وسائل پر ان بڑی طاقتوں کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے چین جیسا ساتھ ملا ہے جس نے سی پیک جیسے منصوبے کے ذریعے پاکستان کو بھی اپنے ساتھ ترقی کے سفر میں شریک کر لیاہے۔