طالبان نے افغانستان پر اپنے قبضے اور کسی سنجیدہ مزاحمت کے نہ ہونے کو، افغان عوام کی تائید قرار دے کر حکومتی انتظامات سنبھالنے کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فی الحال انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر زمینی حقائق دیکھے جائیں تو بظاہر عام عوام اس نئی تبدیلی کو قبول کر چکے ہیں۔ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت، دارالحکومت کابل میں طالبان کا داخل ہونا اور سرکاری فوج کا خاموشی سے سرنڈر کرنا پوری دنیا کیلئے اچنبھے کا باعث بنا اور سابق صدر اشرف غنی کی تقلید میں جہاں حکومتی عہدیداروں نے عجلت میں بھاگنے کی کوشش کی، وہاں پڑھے لکھے اور باصلاحیت نوجوانوں نے بھی اس ہنگامی کیفیت میں ملک سے فرار ہونے میں عافیت سمجھی۔اب بھی ہزاروں غیرملکی اور افغان شہری کابل سے نکلنے کیلئے ایئرپورٹ پر موجود ہیں، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے فوجی اور سفارتی عملے کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کردیا ہے اور ابھی تک کوئی انتقامی کاروائی بھی نہیں ہوئی، لیکن جو افغان غیرملکیوں کے ساتھ کام کرتے رہے، ان کو ڈر ہے کہ جلد یا بدیر اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔اس کے علاوہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے ان افغانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو اپنے ساتھ لے جائیں گے مگر اشرف غنی نے خود فرار ہو کر ہر کسی کو غیر یقینی میں مبتلا چھوڑ دیا اور افراتفری میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ افغانستان کے بارے میں جہاں یہ تاریخ ہے کہ کسی بیرونی حملہ آور طاقت نے کبھی فتح نہیں پائی، وہاں یہ بھی ریکارڈ ہے کہ کابل میں کوئی حکومت سکون سے نہیں رہ سکی اس میں ایک استثنا طالبان کے پہلے دور حکومت کو حاصل ہے کہ ان کے پہلے دور میں بے چینی ضرور رہی، مگر مزاحمت بہت کم اور امن رہا۔اب بھی بظاہر حالات پرامن ہیں لیکن خطرہ ہے کہ جن لوگوں اور ملکوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچی، وہ آہستہ آہستہ سے سر اٹھائیں گے، بالخصوص وہ دہشت گرد تنظیمیں اور گروہ، جو گزشتہ حکومت اور بھارت کی مدد سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کروا رہے تھے اور اب جن کو اپنی حرکتوں کو روکنا پڑے گا، وہ ضرور شرارت کریں گے، اسی طرح بھارت بھی، جو افغانستان کی بدلتی صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان میں رہا اور پہلی دفعہ افغانستان سے بے دخل ہو رہا ہے، وہ بھی چپکے نہیں بیٹھے گا، اگرچہ بھارت کے سفارتی بہروپ میں موجود ایجنٹ نکل گئے ہیں، مگر جووہاں موجود ہیں اور ان کے ذریعے اپنا کھیل شروع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دو دن پہلے جلال آباد میں افغان قومی پرچم کے معاملے پر تلخی پیدا ہوئی، اگرچہ اس میں جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی چھوٹی سی بات بھی اچانک المیہ بن سکتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں اب تک کم از کم 16 بار قومی پرچم کا رنگ اور ڈیزائن تبدیل ہو چکا ہے، ہر حکمران نے اپنی سیاسی و نظریاتی شناخت کا پرچم قومی پرچم قرار دیا، طالبان کا اپنا سفید پرچم ہے، جس کو وہ امارت اسلامی کا پرچم بنانا چاہتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ سابقہ پرچم کو قومی پرچم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، اگر طالبان اس قسم کے معاملات میں الجھ گئے تو مخالفین کو موقع ملے گا کہ وہ عوام کو اشتعال دلائیں، اس سے طالبان کی راہ کھوٹی ہو گی، امید ہے کہ فی الحال ایسے معاملات کو چھیڑے بغیر طالبان ملک کی معاشی حالت درست کرنے، عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے اور انتظامی نظم و ضبط بحال کرنے پر توجہ دیں، اور پھر اپنی بالادستی قائم کرنے کے بعد انتخابات کروائیں۔ جس کے ذریعے ہر طبقے کو مشاورتی عمل میں شرکت کا احساس ہو، تب پرچم تبدیل کرنے جیسے معاملات کو دیکھیں۔ طالبان کیلئے اگر یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ ملک میں ان کے خلاف مزاحمت نہیں ہوئی، مگر ان کو اس بات پر تشویش ہونی چاہئے کہ لوگ افغانستان سے بھاگ کیوں رہے ہیں اور دوسرے ممالک میں پہلے سے موجود پناہ گزین واپس آنے کو کیوں تیار نہیں، ان کی اصل کامیابی یہ ہوگی کہ پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک میں موجود افغان پناہ گزین بھاگ بھاگ کر واپس آنا شروع ہوں، صرف ملک پر قبضہ ہونے سے سیاسی کامیابی نہیں مل جاتی، ایسا ہوتا تو دس سال بعد سویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت اور اب بیس سال سے امریکی چھتر چھاں میں قائم حکومت اتنی جلدی ختم نہ ہوتی۔یہاں اس نکتے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ طالبان حکومت کے مخالفین اور خاص کر وہ ممالک جو یہاں پر رہتے ہوئے خطے میں بدامنی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف تھے وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور طالبان کی معمولی غلطی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے حوالے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔