شہر کی زندگی کس قدر مصروف ہے؟ اس کا بتانا کوئی ضروی نہیں کہ سب ہی جانتے ہیں کہ کسی بھی انسان سے ملیں اوریہ ملاپ عام طور پر بس سٹاپ پر ہی ممکن ہو گئی ہے۔ دو چار باتیں ہی ہوئی ہونگی کہ اچانک ایک بس سٹاپ پر رُکے گی تو گفتگو میں شامل اچانک ہی بس بس کہتے ہوئے بس کی جانب لپکیں گے اور گفتگو آدھے میں ہی رہ جائے گی۔زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب وہ دوستو ں کی محفلیں اور شام کی بزرگوں کی بیٹھکیں توکہیں ہوا ہو گئی ہیں۔ اگر اب بچوں کو بتائیں کہ ہم اس طرح شام دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ گپیں مارا کرتے تھے تو وہ حیران ہو کر ہماے منہ کو تکتے ہیں کہ کیاایسا بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اتنی باتیں کر سکتے تھے۔ ہاں ایسا ہی تھا لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ وہ رات دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ محفلیں سجاتے اور ان محافل میں ایک دوسرے کوکہانیاں سناتے‘ گاؤں میں ہونے والے واقعات ایک دوسرے کے سا تھ شیئر کرتے اور اپنے دکھ سکھ بٹاتے تھے۔ کسی کے گھر اگر ہوئی بیمار پڑ جاتا تو سارا گاؤں اُسکے پرسے کیلئے جاتا اور اس کا غم بٹاتا۔ اسی طرح اگر کسی کے گھر میت ہوتی تو چالیس دن تک اُسکے گھر گاؤں کے لوگ جاتے اور اس کا دکھ بانٹتے۔ ہم نے دیکھا کہ جو بھی لوگ وہاں بیٹھتے وہ باتیں اِدھر ُادھر کی کرتے مرنے والے کی بات بہت کم ہی ہوتی اس لئے کہ دُکھی کا ذہن اس دُکھ سے دوسری طرف موڑنے کی کوشش ہوتی۔اس طرح چالیس دن تک اس گھر میں لوگ جاتے اور اس طرح مرنے والے کا غم گھر والوں کو بھلا نے میں مدد کرتے۔ اس طرح گھر والے اپنے عزیز کا دکھ بھول تو نہیں جاتے اتنا کم از کم ہو جاتا کہ گھر والے زندگی کی طرف لوٹ آتے۔ یہ ایک ایسا عمل ہو تا کہ ایک دُکھ جو گھر والوں پر آتا وہ آسانی سے ختم ہو جاتا۔ گاؤں میں یہ عمل عموماً چالیس دن تک رہا کرتا تھا اور اس کے بعد گھر والے اپنا دکھ تقریباً بھول کر زندگی کی طرف لوٹ آیا کرتے تھے۔ یہ ایک نفسیاتی عمل تھا کہ جس پر انجانے میں عمل درآمد کیا جاتا تھا اور کیاجاتا ہے۔مگر شہروں میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تو پڑوس میں میت ہو جائے تو پتہ نہیں چلتا یا احساس ہی نہیں ہوتا اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ جو پڑوس میں ہوا ہے وہ ہمارے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ گاؤں میں ایسا نہیں ہوتا وہاں تو ہر ایک کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا جاتا ہے اور مل کر یہ دکھ بانٹے جاتے ہیں۔اب تو دیہات بھی شہروں میں بدل رہے ہیں اور بہت سی وہ رسمیں جو ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے ان کو بھولتے جا رہے ہیں اور ان کو فرسودہ رسمیں کہا جاتا ہے لیکن اگر ذرا سا غور کیا جائے تو ہمارے ان پڑھ دیہاتی کس قدر نفسیات کے ماہر ہیں کہ ایک بہت بڑے حادثے کو بھی مل ملا کر اس طرح بانٹتے ہیں کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ اپنا غم بھول جاتا ہے اور آسانی سے معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ شہروں میں کیونکہ ایک دوسرے کے غم میں شراکت کا اصول نہیں ہے اسی لئے ایک معمولی سا حادثہ بھی ایک بڑی بیماری میں بدل جاتا ہے۔ اسلام میں جو پڑوسیوں کے حقوق پر زور دیا گیا ہے تو اس کا نفسیاتی پہلو یہی ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ مل کر بانٹنے سے ایک تو بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے اور دوسرے ایک غم زدہ خاندان کے غم کو اس طرح بانٹا جاتا ہے کہ اُسے احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے بڑے سے بڑے غم کو بھول جاتا ہے۔ شہروں میں زندگی اتنی تیز ہے کہ کسی کو پڑوسی کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ایسا بھی نہیں کہ شہر میں سارے ہی اس احساس سے عاری ہیں بہت سے ہیں جو پڑوسیوں کاخیال رکھتے ہیں تاہم جو عمل اجتماعی انداز میں سر انجام پائے اس کے اثرات بھی نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں یعنی شہروں میں انفرادی طور پر کوئی پڑوسیوں کی خبر گیری کرتا ہوگا تاہم اجتماعی طور پر یہ طرز عمل موجود نہیں۔