نادرا کی مددسے ٹیکس جمع کرنے کیلئے نیا نظام لانے کی تیاری 

 وفاقی حکومت ملک میں ٹیکس زیادہ جمع کرنے کیلئے ایک نئے اقدام کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے تحت شہریوں کی رجسٹریشن کے ادارے نادرا کو ٹیکس کے نظام تک رسائی دی جائے گی۔

نادرا اس ڈیٹا کی بنیاد پر ایک سٹیزن پورٹل بنا کر ملک میں ایسے افراد کی نشاندہی کرے گا جن کی آمدن اور اخراجات تو بے تحاشا ہیں تاہم وہ پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کرتے اور نان فائلر ہیں۔

 اسی طرح ایسے افراد جو ملک کے ٹیکس کے نظام میں فائلر کے طور پر تو رجسٹرڈ ہیں تاہم ان کی جانب سے کم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جو ان کے اخراجات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 

 یہ نظام ملک میں ان کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔  

اسی سلسلے میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے حال ہی میں حکومت کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے اراکین کو اعتماد میں لیا اور اس میں اگلے تین برسوں کیلئے حکومت کے معاشی روڈ میپ کو پیش کیا جس کے ذریعے حکومت ملک میں معاشی گروتھ کو بڑھانا چاہتی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے اور زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کیلئے نادرا کے ساتھ نئے سسٹم کے بارے میں ٹیکس امور سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے کافی مدد فراہم کر سکتا ہے تاہم نادرا کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس ڈیمانڈ بنا سکے۔

ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال ٹیکس اکٹھا کرنے میں ایک مفید ذریعہ ہے لیکن ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے حکومت کو انتظامی طریقوں سے کام لے کر ٹیکس اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کو گذشتہ مالی سال کے مقابلے موجودہ مالی سال میں 900 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کرنا ہے جس کے ذریعے ملک مین ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کے علاوہ اندرونی و بیرونی قرضوں کی قسطیں کی ادائیگی بھی شامل ہیں۔

 شوکت ترین کی جانب سے معیشت کو ترقی دینے کے لیے نئے اکنامک بلیو پرنٹ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔

نادرا نان فائلرز، اور ایسے افراد جو فائلر ہیں تاہم کم ٹیکس جمع کرواتے ہیں، کو کیسے تلاش کرے گا اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے بتایا کہ ان کے دور میں اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور اب اس پر عمل درآمد ہونے جا رہا ہے۔ 

 انھوں نے بتایا کہ نادرا کے پاس کافی ساری معلومات ہوتی ہیں جن کے ذریعے یہ پتا چل سکتا ہے کہ کسی شخص کے کتنے اخراجات ہیں، جیسے کہ اس نے بینک اکاؤنٹ کھلوایا تو بائیو میٹرک کے ذریعے نادرا کے پاس اس کی معلومات ہوتی ہیں۔

 اسی طرح ایک شخص بین لاقوامی سفر کررہا ہے تو پاسپورٹ کے ذریعے اس کی معلومات نادرا تک پہنچ جاتی ہیں۔

 سابق ممبر ایف بی آر رحمت اللہ وزیر نے اس سلسلے میں بتایا کہ موبائل فون کا بل اور یوٹیلیٹی بل کا ڈیٹا بھی نادرا کے پاس ہوتا ہے تو اسی طرح اب پراپرٹی کا ڈیٹا بھی کسی حد تک اس کی رسائی میں ہے۔