سفر تب اور اب

جب ہم طالب علم تھے تو ایبٹ آباد سے پشاور کا سفر چھ گھنٹوں میں طے ہوا کرتا تھا۔ ایک ہی سواری تھی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ(جی ٹی ایس)۔ یہ ایبٹ آباد سے پشاور تک غالباً تین یا چار بسیں چلاکرتی تھیں ان میں کسی دن ایک براستہ غازی اور ایک دن ایک براستہ کیمبل پور تھی۔ اگر سفر کے وقت آپ کو براستہ والی غازی یا کیمبل پور بس پر سفر کا موقع مل جاتا تو پھر آٹھ گھنٹے بھی لگ جاتے تھے۔ آج کے طالب علم جو پشاور پڑھتے ہیں میری اس بات کو مذاق سمجھیں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ سفر کا اُس وقت یہی حال تھا۔ جس دن ہمیں براستہ غازی یا کیمبل پوروالی گاڑی پر سفر کرنا پڑتا تو یقین جانئے کہ دو دن تک تو اس سفر کے اثرات بھی زائل نہیں ہوا کرتے تھے۔ کوشش تو یہی ہو تی تھی کہ سفر ان دو روٹوں پر نہ کیا جائے مگر بعض اوقات مجبوری یہ ہو جاتی تھی کہ ڈائریکٹ والی بسوں کے ٹکٹ ختم ہو جاتے تھے اور آج کل کی طرح اور لوڈنگ کا رواج بھی نہیں تھا۔ اب سوچئے کہ چھ گھنٹے ایک بس میں بیٹھے ہیں اور سڑکوں کا یہ حال ہے کہ اگرپچھلی سیٹ پر جگہ ملی تو پھر جسم کے ساتھ ساتھ سر کی بھی خیر نہیں کہ بس میں اُچھل اُچھل کر سر چھت سے ٹکراتا تھا۔ او ربسیں بھی چند گنتی کی تھیں جو ایبٹ آباد سے پشاورجاتی تھیں صرف ایک بس جسے ایکسپریس کہتے تھے اس میں سفر آسانی سے ہوتا تھامگر اس کاکرایہ بھی زیادہ ہوتا تھا اور یہ کہ ہمیں اس لئے بھی سوٹ نہیں کرتی تھی کہ جب یہ پشاور پہنچتی تو یونیورسٹی جانے والی بسوں کاوقت ختم ہو چکا ہوتا تھا اور پھر یونیورسٹی جانے کیلئے جیب خاصہ ہلکا کرنا پڑتا تھا اور اس وقت کوئی بس یاٹیکسی والا یونیورسٹی جانے کی حامی بھی نہیں بھرتا تھا اس لئے کہ یہ وقت یونیورسٹی جانے کیلئے خطرناک ہو جایا کرتا تھا۔ اس لئے ہمیں ہر حالت میں وقت پر پشاور پہنچنا ہوتا تھا۔ بعض دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ ہم چار پانچ لڑکے پیدل ہی یونیورسٹی کو چل دیئے اور دو تین گھنٹے میں پہنچ گئے۔تا ہم یہ وقت مشکلا ت کا وقت تھا۔ ٹریفک بھی اتنی عام نہیں تھی ایک جی ٹی ایس تھی جو ایبٹ آباد سے پشاور جاتی اور جی ٹی ایس ہی کی بسیں پشاور شہر سے یونیورسٹی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بس یا ٹیکسی والا شام کے بعد یونیورسٹی جانے کا رسک نہیں لیتا تھا۔ ایبٹ آباد سے آخری بس جو پشاور جاتی تھی وہ ایکسپریس کہلاتی تھی اور یہ تقریباًچارگھنٹے میں پشاور پہنچ جایا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی بھی سواری ایبٹ آباد سے پشاور نہیں جایا کرتی تھی اگر ہم نے کوئی بھی بس مس کر دی تو پھر دوسرے دن کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ عموما ًہم لوگ ایک دن پہلے ہی ٹکٹ بک کروا لیتے تھے تا کہ وقت پر ایسا نہ ہو کہ ٹکٹ نہ مل سکے۔ آج کی طرح اور لوڈنگ کا بھی رواج نہیں تھا۔ اگرسیٹیں پر ہو گئی ہیں تو پھر دوسری بس کا انتظار کرنا پڑے گا اور بسیں بھی محددود تھیں یعنی کل غالباً چھ بسیں ایبٹ آباد سے پشاور جاتی تھیں اور یہ ساری جی ٹی ایس ہی تھیں۔ یہ بہت بعد میں ہوا کہ جب ایوب خان کی حکومت تھی اور ان کے داماد نے ٹرانسپورٹ میں حصہ لیا تو پھرسفر بھی آسان ہو گیا کہ پشار کو بھی جی ٹی ایس کے علاوہ چھ سات بسیں چلنا شروع ہو گئیں مگر اس وقت تک ہم فارغ ہو کر گھر آ گئے تھے۔ پھر تو یہ ہوا کہ سڑکیں بھی نئی بن گئیں اور کھلی سڑکیں بھی ہو گئیں وقت کے ساتھ ساتھ حکومتوں نے ٹریفک کی جانب بھی توجہ دی اور سڑکوں کو چوڑا کیا اور مضبوط بھی۔ اس سے یہ ہو ا کہ ٹریفک کی رفتار میں بھی بہت فرق پڑا۔ ایک وقت ایساتھا کہ اگر آپ پشاور گئے ہیں تو اسی دن آپکی واپسی ممکن نہ تھی اورآ پ کو لا محالہ ایک دن پشاور گزارنا پڑتا تھا۔مگر اب تو آپ پشاور کے دو پھیرے بھی آسانی سے لگا سکتے ہیں۔ ہم تو اگر ایک خاص وقت کے بعد اڈے پر پہنچتے تو بس ملنا ممکن ہی نہ تھااور ہمیں پشاور جانے کیلئے دوسرے دن کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ٹریفک کے اضافے اور سڑکوں کی حالت نے سفر کو بہت آسان بنا دیا ہے ویسے بھی اب لوگوں کے پاس اپنی گاڑیوں کی سہولت بھی موجود ہے اور بسوں پر ہمارے زمانے والا رش نہیں ہوتا۔ اور اب کسی کو ایک دن پہلے ٹکٹ بھی نہیں لینا پڑتا سفر کی یہ آسانیاں ہمارے وقتوں میں نہیں تھیں۔