زمانہ بدلا تو اس کے اطوار بھی بدل گئے ہیں اور اس وقت جہاں پوری دنیا کورونا کے زیر اثر ہے وہاں اس نے زندگی کے طور طریقے بدل ڈالے ہیں یوں تو کاروبار زندگی کو اس نے بری طرح متاثر کیا ہے تاہم ایک شعبے پر اس کورونا نے بہت ہی برا اثر ڈالا ہے اور وہ ہے شعبہ تعلیم۔ یہ ایسا شعبہ ہے کہ جس کا تعلق ہماری نئی نسل سے ہے۔ہمارے سکول،کالجز اور یونیورسٹیاں ایسی جگہیں ہیں کہ جہاں کورونا کو ایک اکٹھ آسانی سے مل پاتا ہے۔ اور کہا یوں جاتا ہے کہ کورونا وہاں پر زیادہ حملہ آور ہوتا ہے کہ جہاں اُسے بہت سے لوگ اکٹھے مل جائیں اور سکول کالجز اور یونی ورسٹیاں ایسے ادارے ہیں کہ جہاں ملک کی نئی پود اکٹھی مل سکتی ہے اور ہمارا اس پود کو بچانا نہایت ہی اہم ہے۔ اسی لئے ہم نے پورے ملک میں ان اداروں کو وقتا فوقتا بند کر نے کی پالیسی اپنائی ہے اور اس کا حل یوں نکالا گیا ہے کہ بچوں کی آن لائن کلاسز لی جا رہی ہیں۔ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے اس کا بھی اگر سروے کر لیا جاتا تو بہتر تھا اس لئے کہ یہ وہ ملک ہے کہ جس میں اس قسم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ جس ملک میں گاؤں تو دور کی بات ہے شہروں کی آبادی میں بھی انٹرنیٹ کی سہولیات سب کو میسر نہیں۔ اس ملک میں پڑھائی کو آن لائن کر دیا گیا ہے۔ یعنی بچوں کو یوں پڑھایا جا رہا ہے کہ اساتذہ آن لائن درس دے رہے ہیں او ر بچے اب اسے اپنے گھروں میں بیٹھے اپنے اپنے لیپ ٹاپ لئے ان کے لکچروں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب اس کا علاج تو یہی ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے مگر اس کا جائزہ لیا جائے تو کتنے طالب علم اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جس ملک میں سہولیات پوری طرح میسر نہ ہوں تو وہاں یہ طریقہ تعلیم کتنا مفید ہو گا اور اس سے کتنے طلباء مستفید ہو رہے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ جہاں بچوں کو اس تعلیم سے مستفید ہونے کی سہولیات میسر بھی ہیں وہاں وہ اس سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ اس لئے کہ طلباء کی نفسیات تو یہ ہے کہ وہ کلاس روم میں بھی بیٹھ کر پوری طرح علم حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں‘وہاں آن لائن سے کہاں مستفید ہو رہے ہوں گے۔تا ہم کچھ نہ ہونے سے کچھ تو بہتر ہے مگر کیا وہ سارے بچے جو کسی بھی سکول میں پڑھ رہے ہیں کیا اُن سب کے گھروں میں وڈیو اور لیپ ٹاپ کی سہولت موجود ہے۔ ہم تویہ سمجھتے ہیں کہ ہر گھر میں تو یہ سہولت موجود نہیں ہے اسلئے شائد سارے بچے جو کسی بھی سکول میں یا کسی بھی کلاس میں پڑھ رہے ہیں اور جن کیلئے سکول نے آن لائن پڑھائی کا انتظام کیا ہے وہ شاید سارے اس سے مستفید نہ ہو ر ہے ہوں۔ یہ مسئلہ البتہ تب پیدا ہو گا کہ جب بچے سکولوں میں دوبارہ حاضر ہو جائیں گے اس لئے کہ بہت سے بچوں نے تو اس آن لائن تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھایا ہو گا اور سکول امتحان تو ساری پڑھائی کا ہی لیں گے۔ ہم تو اللہ سے بصد خلوص یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ کریم اس بلا سے پاکستان کو چھٹکارہ دلوائے اور پھر سے نارمل طریقے سے پڑھائی شروع ہو سکے۔ اس کورونا نے اور تو کسی بھی جگہ اتنا اثر نہیں ڈالا کہ جتنا اس کے تعلیمی اداروں میں ڈالا ہے۔ ہمارے طالب علم تو ویسے بھی چھٹیوں کو انجوائے کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس کورونا نے ان کو یہ سہولت بدرجہ اتم مہیا کر دی ہے۔ ایک دفعہ تو بغیر امتحان کے ہی پروموشن دی گئی ہے مگر دوسری دفعہ حکومت ایسا کرنے نہیں جا رہی مگر کیا بچے امتحان دینے کیلئے تیار ہوں گے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سال بھی بچوں کا ضائع ہی ہو گا۔ بہت کم بچے ہوں گے جو ان تعطیلات میں پڑھائی کر رہے ہوں گے۔