ہمارے ہاں مقامی طور پر بہت سے محاورے رائج ہیں جس کا مطلب ہے کہ کوئی بدقسمت ہی ہوگا جو پکھل کو چھوڑ کر ہزارہ میں آ بسے گا۔پکھل یعنی مانسہرہ اور اس سے ملحقہ علاقہ کسی وقت ایک بہت ہی زرخیز علاقہ تھا جب کہ اس کے مقابلے میں بہت پہلے ہزارے کا علاقہ یعنی ہری پور اور اس سے ملحقہ علاقہ اتنا زرخیز نہیں تھااس علاقے میں نہریں وغیر ہ بہت بعد کی بات ہے اس میں پنیاں کا علاقہ ایک میرہ تھا جس میں فصلیں وغیرہ بھی بارش ہی کی محتاج تھیں‘اسلئے ہمارے علاقے میں ایک ماہیا بھی مشہور تھا کہ ”سُکا پُکا مل ماہیا پنڑیاں دے میرے تے۔“ یعنی اس علاقے میں ملاقاتیں بھی خالی خولی ہی تھیں‘اب تو یہ علاقے ماشا اللہ اپنی پیداوار وغیرہ کے لحاظ سے بہترین علاقہ ہے اور یہ ایوبی دور کے بعد کی بات ہے کہ جب یہاں نہری سسٹم جاری ہوا اس سے قبل چونکہ یہ علاقہ بارانی تھا اس لئے اگر بارشیں ہو جاتیں توبہتر اور اگر نہ ہوتیں تو فصلیں شاذ و نادر ہی ہوتی تھیں‘ اسی لئے یہ ماہیا مشہور تھا۔ اب تو ماشا اللہ پورا ہزارہ نہری پانی سے مستفید ہو رہا ہے‘ مگر جب بارانی علاقے تھے تو ایک تو اس علاقے میں بارشیں ہوتی بھی کم کم تھیں اور اس کی وجہ سے فصلیں بھی اس طرح کی نہیں ہوتی تھیں کہ جیسے آج ہیں۔کاہل ڈیم اور پہٹڑی ڈیم نے اس علاقے کی تقدیر ہی بدل دی ہے اور اب یہاں ماشا اللہ ہر قسم کی فصلیں اگائی جاتی ہے۔ مگر جب یہ ماہیا مشہور تھا تو جویہاں پانی کی کمی تھی اور فصلیں بھی اس طرح کی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ اس کے مقابلے میں پکھل یعنی مانسہرہ اور اگرور کا علا قہ بہت زرخیز بھی تھا اور یہاں نہری پانی کی وجہ سے فصلیں بھی ما شا اللہ بہترین ہوتی تھیں اور اب اگر کوئی اس علاقے کو چھوڑ کر لق و دق ہزارے یعنی ہری پور اور اس سے ملحقہ علاقے میں جاتا تو اس کیلئے یہی محاورہ کہا جاتا تھا۔ اب تو ہزارے کے علاقے یعنی ہری پور، پنیاں اور اس سے ملحقہ علاقے پُہٹری اور کاہل ڈیم کی وجہ سے بارانی سے آبیہ میں تبدیل ہو گئے ہیں اور یہاں ہر قسم کی فصلیں اُگائی جا رہی ہیں مگر جب یہ محاورے ایجاد ہوئے تھے تو اس وقت پکھل کے مقابلے میں ہزارہ (یعنی ہری پور اور اس سے ملحقہ علاقے) بارانی علاقہ تھا او ر فصلوں کی پیدا ور بارش کی محتاج تھی ‘خصوصاً پنیاں کا میرا تو واقعی فصلوں کی پیدا وار میں مانسہرہ کے علاقے کے مقابلے میں تو صفر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی لئے جو لوگ پکھل سے ہجرت کر کے ہری پور کے علاقے میں آباد ہونے آتے تو ان کے لئے یہ محاورہ بو لاجاتا تھا۔ کہ ایک زرخیز اور پیداواری علاقے کو چھوڑکر ایک مقابلتاً بنجر علاقے میں آباد ہونے جا رہے ہیں۔ اب تو نہروں نے اس علاقے کو بھی سونا بنا دیا ہے مگر جب محاورہ بنا تو اُس وقت کی صورت حال یہ ہوا کرتی تھی۔ اب اگر کوئی شخص ایک چلتے کاروبار کو چھوڑ کر ایک نیا کاروبار اختیار کرنے جاتا ہے تو اس کیلئے بھی یہی محاورہ بولا جاتا ہے‘ یعنی ایک شخص ایک اچھی جگہ کویا ایک چلتے کاروبار کو چھوڑ کر ایک نیا اور کم منافع بخش کاروبار کرنے کا سوچتا ہے تو اس کیلئے بھی ایسا ہی کہا جاتاہے۔ محاورہ جب بنتا ہے تو وہ ایک مخصوص وجہ سے ہوتا ہے مگر بعد میں اس کو پھیلا دیا جاتا ہے اور اس کے مطابق یا اس سے ملتے جلتے حالات کیلئے محاورے کا اطلاق کر دیا جاتا ہے‘ اب ہزارہ تو پکھل کے مقابلے میں سو گنا زیادہ زرخیز اور پیداواری علاقہ ہو گیا ہے اسلئے کہ دوڑ اور کاہل ندی سے جو چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں ان کی وجہ سے یہ علاقہ توبہت زیادہ پیدا واری علاقہ ہو گیا ہے مگر محاورہ تو محاورہ ہے اب وہ اس حالت کو تو بیان نہیں کر سکتا مگر جب یہ محاورہ بنایا گیا تھا اُس وقت پکھل ایک بہت زبردست پیداواری علاقہ تھا اور ہزارہ اس کے مقابلے میں ایک بنجر علاقہ تھا مگر محاورہ تو محاورہ ہے‘جب بن جاتا ہے تو قائم رہتا ہے۔