امتحاں ظالم 

زندگی میں بہت سے امتحانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پڑا بھی۔ہم نے امتحان دیئے بھی اور پاس بھی کئے مگر کچھ امتحان ایسے ہوتے ہیں کہ جو یاد گار ہو تے ہیں۔ ہمیں جو پہلی دفعہ سکول کا سامنا کرنا پڑا تو ہمارے کھیل کود کے دن تھے کہ ہمیں پکڑ کر سکول میں بٹھا دیا گیا۔ اب ہماری قسمت دیکھئے کہ ابھی ہمارا سکول کو جانا اتنا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم سکول سے تھوڑے مانوس ہی ہو جاتے کہ سکول کا امتحان آ گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہر پرائمری سکول میں ایبٹ آ باد میں سکولوں کے انسپکٹر کے دفتر سے ایک عدد انسپکٹر سکولوں کے معائنے کیلئے جاتا تھا۔ ہم اس کو امتحانی کہا کرتے تھے اور بعض بچے صرف امتحان بھی کہتے تھے۔ انسپکٹر صاحب یہ معائنہ ہر سکو ل کا سال میں تین دفعہ کیاکرتے تھے۔ ان معائنوں کو سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ معائنہ کہا جاتا تھا۔ امتحان کا غلغلہ ہوا تو ہمارے ہیڈ ٹیچر ممتحن کو لینے حویلیاں گئے ہوئے تھے۔ سکول کے باہر جو راستہ میرے گاؤں کو جاتا تھا اس راستے میں کھڑے ہو جائیں تو حویلیاں سے آنے جانے والا راستہ دور تک دکھائی دیتا تھا سارے بچے اس راستے پر کھڑے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ کب ممتحن صاحب تشریف لاتے ہیں۔ جو بھی دور سے اس راستے پر آتا دکھائی دیتا بچے شور کرتے کہ امتحان آ گیا ہے اسی کشمکش میں کیا دیکھتے ہیں کہ گھوڑی پر سوار ایک شخص آ رہا ہے اور گھوڑی کی باگیں ہمارے اول مدرس صاحب نے تھام رکھی ہیں۔ سب نے شور مچایا کہ امتحان آ گیا ہے۔ اور سارے بچے شورمچاتے ہوئے سکول کی جانب بھاگے۔ ہم چونکہ چھوٹے تھے اور امتحان کو کوئی بڑی بلا سمجھتے تھے اس لئے جب بچے سکول کی طرف دوڑے تو ہم سیدھے گھر کی طرف بھاگے اور گھر آ کے ہی دم لیا۔ امی نے ہمیں گھبرائے ہوئے دیکھا تو پوچھا کی کیا ہوا ہے تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ میں نے کہا کہ سکو ل میں امتحان آگیا ہے اس لئے میں بھاگ کر گھر آ گیا ہوں۔ امی صاحبہ خوب ہنسیں کہ پاگل اگر امتحان آیاہے تو وہ تم کو کوئی کھا جاتا کہ بھاگ آئے ہو۔ ہم اس کا کیا جواب دیتے ہم پر تو ابھی بھی کپ کپی طاری تھی خیر یہ ہمارا ممتحن صاحب کے ساتھ پہلا تعارف تھا جو نا کام رہا۔ اس کے بعد تو امتحانوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اللہ کا کر م ہے کہ ہم نے کبھی ان امتحانوں میں ناکامی کامنہ نہیں دیکھا‘ چوتھی جماعت کا یاد ہے کہ جب ممتحن نے پہلا سوال بولا تو وہ سوال تجارت کے قاعدے سے تھا۔ ہم نے جو سوال حل کر کے سلیٹ دی تو اس میں ہم نے پائیوں میں 1\4 بجائے  2/8 لکھ دیا باقی سوال بالکل صحیح تھا۔ممتحن اس کو غلط کہنے لگا تو ہیڈماسٹر صاحب نے کہاکہ بچے نے صرف آخر میں کاٹا نہیں ہے ورنہ سوال توٹھیک ہے۔ اتنی سی غلطی سے بچے کا سوال غلط نہیں کہنا چاہئے تو ممتحن مان گیا اور ہمارا سوال ٹھیک مان لیا گیا۔ یہ سوال ہم پانچ بچوں کا ٹھیک ہواتھا۔ہم پانچوں کو باہر نکال کر بٹھا دیا گیا اور باقی بچوں کو دیگر سوال دیئے گئے۔ اس طرح اس دن ہماری کلاس کے بچوں کو گیا رہ سوال بولے گئے اور جن بچوں کے سارے سوال غلط تھے ان کو فیل کر دیا گیا۔  اس کے بعد تو ہر جماعت میں تین تین امتحان دے کر پاس ہوتے رہے۔ اسی لئے اوپر دیا گیا شعر ہمیں یاد ہو گیا اور اب بھی یاد ہے۔ پھر یونیورسٹی کے امتحانات شروع ہو گئے اور ہم میٹرک اور ایف ایس سی کے پرانے کورس کے امتحانات دینے والے آخری طلبہ تھے۔ اس کے بعد میٹرک اورانٹر کے امتحانات پشاور بورڈ کے حوالے ہو گئے‘ ہمارے بعد کے سال میں نیا کورس آ گیا اور ہم سے بعد کے سال والے طلبہ نئے کورس میں ہی امتحان پاس کرتے رہے۔ ہاں بعد کے سارے سالوں میں ہم ممتحن کو دیکھ کر کبھی بھی بھاگے نہیں۔ گو چوتھی تک امتحانات تو کانپتے ہوئے ہی دیئے مگر اللہ کا فضل یہ ہوا کی ناکامی کامنہ نہیں دیکھنا پڑا۔ ہمارے وقت میں تو کورونا وباء یہ اس طرح کی صورتحال کا بھی سامنا نہیں ہوا تھا جہاں طلباء کو امتحان کے بغیر ہی اگلی جماعت میں ترقی دی جاتی ہے اور اسے امتحان کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔