یوں تو لکھاری لوگ بڑی بڑی باتیں بنانے کے ماہر ہوتے ہیں کیونکہ ان کو الفاظ کے استعمال کا فن جو ملا ہوتا ہے۔لکھاری آبزرور ہوتا ہے۔ وہ صرف دیکھتا اور اس پر تبصرہ کرتا ہے۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ لکھاری عملی طور پر بھی کسی سانحے سے گزرا ہو تاہم وہ منظر نگاری کے ذریعے تصورات میں عملی زندگی کا رنگ بھر لیتے ہیں۔ لکھاری چونکہ چیزوں کو دیکھتا اور ان کاتجزیہ کرتا ہے اس لئے اُسے عملی طور پر کسی بھی میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک جنگجو اپنی روداد کو کاغذپر شکل دے سکے۔ وہ بیان تو کر سکتا ہے مگر تصویر کشی اس کے بس سے عموماً باہر ہوتی ہے۔ کیونکہ اُ سکا میدان عمل کا میدا ن ہے جب کہ لکھاری کا میدان قلم کے گھوڑے دوڑانے کا میدان ہے۔ ایک جنگجو میدان عمل میں قدم رکھتا ہے اور یہاں سے وہ جو تجربہ حاصل کرتا ہے وہ سادگی سے بیان کر سکتا ہے اور کرتا ہے جب کہ لکھاری اُسی کے تجربے کو جب قلم کی زبان دیتا ہے تو اس میں چاشنی کے رنگ بھی بھرتا ہے۔ اب ایک تلوار سے کھیلنے والے میں اور قلم سے کھیلنے والے میں فرق تو ہوتا ہے کہ تلوار سے کھیلنے والا عملی طور پر ایک تجربہ حاصل کرتا ہے جب کہ ایک قلم کار اُسی تجربے کو الفاظ کے سانچے میں یوں ڈھالتا ہے کہ جیسے وہ خود میدان عمل میں ہے اور پڑھنے والا لکھاری کے ساتھ اُسی میدان کا مسافر بن جاتا ہے۔ لکھاری کا کمال یہ ہے کہ و ہ جو کچھ لکھے اُس میں پڑھنے والا یو ں کھو جائے کہ جیسے و ہ خود عملی طور پر اس میں شریک ہے۔ اگرلکھاری کوئی جنگ کا نقشہ کھینچتا ہے تو اس میں کمال یہ ہے کہ وہ الفاظ کا چناؤ ایسا کرتا ہے کہ جیسے قاری اُس میدان میں خود حاضر ہے اور جنگ کا حصہ ہے۔ اسی طرح اگر لکھاری کسی عشقیہ داستان کو بیان کر رہا ہے تو اس کے الفاظ کا کمال یہ ہو گا کہ قاری خود کو اس داستان کا ہیرو سمجھ رہا ہو اور لکھاری کے الفاظ کے ساتھ وہ اسی طرح بھاگ رہا ہو کہ جیسے اُس کے ساتھ یہ واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اور اگر لکھاری کسی جنگ کی روداد بیان کر رہا ہے تو اُس کا کمال یہ ہو گا کہ قاری خود کو اس جنگ میں اس طرح ملوث پائے جیسے اس میں ہیرو کا کردا ادا کر رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی کٹھن کام ہے کہ ْکوئی شخص کوئی تحریر پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ خو د کو اس کا ایک کردار سمجھتا ہے مگر لکھاری جن جان جوکھوں سے گزرتا ہے قاری کا اس کو اندازہ نہیں ہوتا۔ لکھاری ایک تجربے کو الفاظ کی سانچے میں یوں ڈھالے کہ قاری خود کو اس داستان کا ایک کریکٹر سمجھے تو یہ لکھاری کی کامیابی ہوتی ہے اور اس کیلئے لکھاری کو جن مشکل راہوں کا سفر کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ قاری کو نہیں ہوتا۔ قاری تو صرف الفاظ کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے جب کہ لکھاری ان الفاظ کو جس طرح لاتا اور ان کو ترتیب دیتا ہے کہ اس کا ہی کمال ہوتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ لکھاری کا اپنے قاری کا قدم قدم پر خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ اُسکی تحریر میں کوئی ایسا سقم نہ آئے کہ قاری کی توجہ اُس کی تحریر سے ہٹ جائے۔ یوں تو جب کوئی لکھاری قلم اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ قدرت کی مدد شامل ہو جاتی ہے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے وہ اسکے ذہن میں یو ں آتا کہ جیسے ایک دریا ہے کہ جو پوری آب تاب سے اُترائیوں میں بھاگ رہا ہے اور اُس کا قلم اُس دریا کی سیر کو نکلا ہو ا ہے۔ اس میں سب سے بڑی بات جس کا تجربہ سارے ہی لکھاری کرتے ہیں وہ قدرت کی طرف سے الفاظ کا وہ دریا ہے کہ جو ٹھاٹھیں مارتا ہو چل رہا ہوتا ہے اور اس میں الفاط کے موتی تیر رہے ہوتے ہیں جن کو لکھاری چنتا اور لڑی میں پروتا جاتا ہے۔ اس میں تووئی شک نہیں کہ ایک لکھاری پر قدرت کی بے شمار عطائیں ہوتی ہیں اور سمجھنے والے قدرت کے ممنون ہوتے ہیں کہ اُس نے لکھاری کو الفاظ عطیہ کئے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے عطیہ ہے کہ جو ہم جیسے نالائقوں کو بھی عطا ہو جاتا ہے اس پر سوائے سجدہ شکر بجا لانے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔