میرے جیسے فرسودہ اور بیکار ہوچکے ٹیلی ویژن کے اداکار بیتے دنوں کی یاد میں ہمیشہ آہیں بھرتے رہتے ہیں‘ اپنے ماضی کے کارناموں کو کوئی سنے یا نہ سنے بیان کرتے رہتے ہیں کہ جناب فلاں ڈرامے میں میں نے جب شہنشاہ بابر کا کردار اداکیا تو یقین مانئے بابر کی روح کابل میں واقع اپنے مزار سے نکل کر میرے آس پاس منڈلانے لگی کہ واہ... میں کیا بابر تھا...بابر تو تم ہو...وغیرہ...لیکن میرا معاملہ کچھ الگ ہے کہ مجھے ہمیشہ اپنے ٹیلی ویژن ڈراموں کی حماقتیں یاد آتی ہیں کہ میں کیا ہی بیہودہ قسم کا اداکار ہوا کرتا تھا...شکر ہے ان دنوں ابھی بش پر جوتے پھینکنے کا رواج نہیں تھا ورنہ ناظرین مجھ غریب کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے لیکن خوش قسمتی سے ان حماقتوں کا کوئی ریکارڈ نہیں‘ چنانچہ ہماری جان بچ گئی۔ایک ڈرامہ تھا اور ان دنوں لاہور ٹیلی ویژن سٹیشن لاہور ریڈیو سٹیشن کے پچھواڑے میں واقع ایک دو کمروں پر مشتمل ہوتا تھاتو وہاں محمد نثار حسین اس ڈرامے کے ہدایت کار تھے منظر کچھ یوں تھا کہ میں ایک امیر شخص کے روپ میں نہایت بے رخی سے ایک سگار پیتا دھویں کے بادل منہ سے برآمد کرتا ہوں اور ایک خاتون سنگھار میز کے سامنے براجمان اپنی نوک پلک درست کرتی بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں اور ایک طویل مکالمے میں مجھے کوس رہی ہے اس دوران کیمرہ مسلسل میرے چہرے پر ذوم ان کر رہا ہے‘ قریب آرہا ہے اور میں اس طویل مکالمے کے اختتام پر صرف اتنا کہتا ہوں ”میرا شوفر تمہیں گھر چھوڑ آئے گا“ ریکارڈنگ شروع ہوئی‘ اس خاتون اداکارہ نے اپنے طویل مکالمے نہایت مہارت سے ادا کئے‘ اب میرا چہرہ اور سگار سکرین پر بگ بگ کلوز میں تھا چنانچہ میں سگار کا ایک اور کش لگا کر کہتا ہوں ”میرا شوہر تمہیں گھر چھوڑ آئے گا“ محمد نثار حسین مجھ سے نہایت خفہ ہوتا ہے اور مسکرا بھی رہا ہے ”تارڑ تم نے واضح طور پر کہنا ہے کہ میرا شوفر تمہیں گھر چھوڑ آئے گا شوہر نہیں“ میں مناسب معذرت کرتا ہوں‘ منظر دوبارہ شروع ہوتا ہے اور میں دل ہی دل میں گردان کررہا ہوں میرا شوفر تمہیں گھر چھوڑ آئے گامیرا شوفر... اور جب بالآخر اس طویل مکالمے کے بعد میری باری آتی ہے تو میں کہتا ہوں..میرا..شوہر تمہیں گھر چھوڑ آئے گا..نثار اپنے بال نوچتا ہوا غصے میں آجاتا ہے..جب یہ منظر تیسری بار شروع ہوا تو میں نے کہا‘ میرا شو...شو...فر...تمہیں گھر چھوڑ آئے گا‘ قصہ مختصر کوئی ساتویں ٹیک میں جا کر میں کہہ سکا کہ میرا شوفر...اور اس کا لہجہ بھی شوہر ہی لگتا تھا.. ایک اور ڈرامے میں حسب معمول میں ایک امیرشخص کا کردار ادا کر رہا ہوں مرحوم ادیب میرے سیکرٹری ہیں..ڈرامہ”سورج کو ذرا دیکھ“ انور سجاد کا تحریر کردہ.. میں نے اپنے وسیع گھر میں ایک پارٹی کا اہتمام کر رکھا ہے۔ایک خوبصورت لڑکی اور ان دنوں مدیحہ گوہر واقعی خوبصورت تھی پارٹی میں داخل ہوتی ہے اور میں اپنے سیکرٹری سے پوچھتا ہوں کہ یہ لڑکی کون ہے؟کیمرے حرکت میں آتے ہیں‘ ریکارڈنگ کا آغاز ہوتا ہے‘ مدیحہ داخل ہوتی ہے اور میں اپنے سیکرٹری سے پوچھتا ہوں‘ یہ لکڑی کون ہے؟ یہاں بھی ہدایت کار نثار ہے..دوسری بار”یہ لڑکڑی کون ہے؟ کہہ جاتا ہوں اورتیسری بار یہ تو کہہ جاتا ہوں کہ یہ لڑکی کون ہے لیکن اس سے پیشتر بے دھیانی میں جام کی بجائے ایک چائے دانی اٹھا لیتا ہوں تو یہاں بھی خاصے بے عزت ہوئے...صفدر میر کا سیریز”آخر شب“ اور ڈرامہ ”جلال الدین خلجی“ ہم گھنی سفید داڑھی لگائے‘ سر پر تاج شاہی سنبھالتے لباس فاخرانہ میں ملبوس تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ دائیں بائیں مؤدب درباری سرجھکائے کھڑے ہیں‘ ایک باغی شہزادے کو پیش کیا جاتا ہے اور ہم اسے مخاطب کر کے بلامبالغہ دو صفحوں پر محیط ڈائیلاگ شاہانہ کروفر سے ادا کرتے ہیں جن میں بار بار بنگال اور دکن کی مہمات اور ان کی تکنیکی تفصیل آتی ہے لیکن ہم اس کٹھن مرحلے سے گزر جاتے ہیں اور صرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس شہزادے کو حراست میں لے لیا جائے‘ شاہی جلاد کا کردار ایک ناتواں سے اداکار ملک صاحب ادا کر رہے ہیں اور وہ آگے بڑھ کر سپاہیوں کو حکم دیتے ہوئے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ”پکڑ لو“..لیکن میری طویل تقریر کے بعد وہ گڑبڑا جاتے ہیں اور کہتے ہیں ”پکڑ پکڑ لو“...میں سرتھام کر رہ جاتاہوں کہ میں نے پچھلی پوری شب ان مکالموں کو رٹنے میں گزار دی تھی‘ سیٹ پر موجود اداکار اور سٹاف کے لوگ ملک صاحب کی اس حماقت پر ہنسنے لگتے ہیں‘ لیکن نثار غصے میں ہے‘ منظر دوبارہ شروع ہوتا ہے‘ میں پھر سے مناسب جاہ وجلال سے گرجتے ہوئے وہ طویل مکالمے بخوبی ادا کرکے اشارہ کرتا ہوں تو ملک صاحب آگے بڑھ کر کہتے ہیں ”پکڑ لو لو“... تیسری بار وہ آگے بڑھ کر نہایت رعب سے کہتے ہیں ”پھڑ لو“..نثار کا بلڈ پریشر عروج پر ہے.. چوتھی بار میں پھر سے اپنے مکالمے ادا کر رہا ہوں اور اختتام کے قریب ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے بائیں جانب عاصم بخاری نہایت پیٹ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور ان کا پیٹ ہولے ہولے ہل رہا ہے اس لئے کہ وہ ملک صاحب کے متوقع”پکڑ لو“ کی توقع میں اندر ہی اندر ہنس رہے ہیں اور اس ہنسی کو روکنے کی خاطر اپنے آپ پر جبر تو کرتے ہیں بلکہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کوشش میں انہوں نے اپنے آپ کو کاٹ لیا خون آلود کرلیا لیکن پیٹ ہلتا رہا.. اب مجھے بھی ہنسی کا دورہ پڑنے والا تھا لیکن میں نے اپنے آپ کو بمشکل روکے رکھا اور مکالمے بولتا رہالیکن جب عاصم بخاری کے ہلتے ہوئے پیٹ سے توجہ ہٹانے کے لئے دائیں جانب دیکھا تو میرے درباری اداکار شاہنواز اور ظفر مسعود اگر چہ ہاتھ باندھے سرجھکائے مؤدب کھڑے ہیں لیکن وہ بغیر آواز کے کھی کھی کر رہے ہیں جس پر ان کا کچھ اختیار نہیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب میں اپنے طویل ڈائیلاگ کے آخرمیں کہہ رہا تھا کہ دکن اور بنگال کی مہمات میں ہم نے فتح حاصل کی اور دشمنوں کو زیر کر کے کہا...ہی ہی...کھی کھی...میری بھی ہنسی نکل گئی اور میں قہقہے لگانے لگا... نثار نے صرف مجھ پر عتاب نازل کیا کیونکہ کیمرہ صرف مجھ پر تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ میرے آس پاس ہنسی کی کیسی کھلبلی مچی ہے۔