کیا اردو کا نثری ادب محدود ہے؟

کبھی کبھی یہ جو آخری زمانے تیزی سے فنا کی منزل کی جانب سفر کرتے ہیں تو کبھی کبھی کچھ دیر پہلے نیند سے غنودگی کی پہلی غٹرغوں میں عجب سوال دھند کی مانند تیرتے چلے آتے ہیں کہ ابر کیا چیز ہے‘ ہوا کیا ہے...اور تجھ بن کوئی نہیں موجود وغیرہ اور لامحالہ وہ دو سوال جنکے جواب لوگ آج تک تلاش کرتے رہے ہیں یعنی انسان کہاں سے آیا اور اس نے جانا کہاں ہے توکبھی ان دونوں کے جواب دل کو ڈھارس دینے والے ہوتے ہیں اور اکثر ان کا کوئی سرا نہیں ملتا کہ کی جاناں میں کون اور بلھیا کی جاناں میں کون... لیکن ان قدرے گنجلک معاملات کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ایک کالم سے ایسا بوجھ تو اٹھائے نہ اٹھے... اور آپ بوریت سے دوچار ہونگے چنانچہ ہلکی پھلکی حسن یار کی باتیں کرتے ہیں مثلاً یہ کہ کچھ دیر پہلے نیند سے ایک اور سوال بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اجی یہ متاع حیات کی کیوں آوارگی کے جنوں میں لٹادی... کیوں اپنے من کی موج میں دربدر ہوتے رہے‘ ملکوں ملکوں خاک چھانتے رہے؟... تو کبھی کبھی کچھ دیر پہلے نیند سے جواب آتا ہے کہ مسافتیں تمہاری بھی رائیگاں نہیں گئیں‘ تم پر ایک بڑا سچ آشکار ہوا کہ تمہارا سچ ہی آخری سچ نہیں ہے‘ اس دنیا میں اور بھی سچ ہیں... تم ہی حرف آخر نہیں ہو...ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں... میرا خیال ہے کہ معاملہ پھر سے نہ چاہتے ہوئے بھی ذراگھمبیر ہونے لگا ہے تو اسے ذرا آسان کرکے ادب کی سلطنت پر منطبق کرتے ہیں یعنی صرف ہمارا ادب ہی نہیں ہے‘ سارے جہاں میں دھوم اردو زبان کی ہی نہیں ہے‘ ہم ادب کے اس کینوس کو ذرا وسیع کرتے ہیں‘ یورپ اور جنوبی امریکہ کا رخ نہیں کرتے صرف مسلمان ادیبوں کا تذکرہ کرتے ہیں... میں نے ایک ادبی کانفرنس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہیں یہ کہہ دیا کہ اردو نثری ادب بہت محدود ہے‘ ذرا اپنے کنویں سے باہر جھانکتے تو آپ دنگ رہ جائینگے کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کیا کیا شاندار ناول لکھا جارہا ہے تو مجھ پریلغار ہوگئی‘   بہرحال گزارش یہ ہے کہ ذرا اردو کے خول سے باہر آکر دیکھئے تو سہی کہ دنیا بھر میں مسلمان حضرات کیسے کیسے شاندار ناول لکھ رہے ہیں‘ آپ کی گنتی تو’آگ کا دریا‘اور’اداس نسلیں‘ کے بعد تمام ہو جاتی ہے...اسماعیل قدارے‘ البانیہ کا وہ ناول نگار ا جس کا ہر ناول شاہکار ہوتا ہے... صرف’خوابوں کا محل‘ پڑھ لیجئے ’جنرل آف اے ڈیڈ آرمی‘ یعنی’ایک مردہ فوج کا جنرل‘ ہی دیکھ لیجئے وہ گارسیا ماکیز اور میرے پسندیدہ ہوسے سراماگو کے ناولوں پر بھی حاوی ہو جاتا ہے...’خوابوں کا محل‘ ایک عجب خوابناک اور جادوئی ناول ہے‘ ہم جیسوں کے ذہن میں تو ایسا موضوع نازل ہوہی نہیں سکتا... البانیہ کے صدر مقام ترانہ میں سلطنت عثمانیہ کے زمانوں میں ایک شاندار کئی منزلہ قصر ہے جس کی ہر منزل پر بے شمار شعبے ہیں... اور وہاں نہایت سنجیدہ لوگ نیم تاریکی میں سلطنت بھر میں جتنے بھی خواب لوگوں کو آئے ہیں انکی تعبیر کرنے میں مگن ہیں اور اس تعبیر کو استنبول کے سلطان تک پہنچاتے ہیں کہ آپکی سلطنت میں البانیہ کے فلاں گاؤں میں ایک شخص نے خواب میں چاند کو بجھتے ہوئے دیکھا ہے تو کہیں یہ آپکے زوال کی تعبیر تو نہیں‘ گئی رات’پیلس آف ڈریمز‘ کے صحن میں طویل مسافتوں کے بعد ایک چار گھوڑوں والی بگھی داخل ہوتی ہے گھوڑے
 تھکاوٹوں سے مسمار ہوا چاہتے ہیں اور بگھی کا مسافر چھلانگ مار کر اترتا ہے اور کہتا ہے ”میرے پاس ایک خواب ہے“پچھلی شب فلاں دور افتادہ البانوی گاؤں کے ایک دہقان کو آیا تو میں اس خواب کی خبر دینے کیلئے چل کھڑا ہوا‘ آپکو اسماعیل قدارے کی ناول نگاری پر قدرت کا اندازہ ہوگیا ہوگا اور پھر الجیریا کاناول نگار یاسمین خدرے ہے‘  ایک تخلیقی باغی ذہن رکھتا تھا‘ وہ اپنی تحریریں اپنے نام سے چھپوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا چنانچہ مصنف کے طورپر اس نے اپنی بیوی یاسمین کا نام استعمال کیا‘ فوج سے ریٹائر ہو کر جب وہ آزاد ہوا اور اپنا اگلا ناول تحریر کیا ناشر کی خدمت میں پیش کیا تو اس نے کہا میجر صاحب آپ کے نام کو کوئی نہیں جانتا یہ ناول ردی میں فروخت ہو جائیگا... ہاں اگر آپ اس ناول کو بھی اپنی بیوی یاسمین کے نام سے شائع کروائیں تو پوری دنیا اسے پڑھے گی چنانچہ میجر صاحب ابھی تک یاسمین خدرے ہیں اور پیرس میں مقیم ہیں... اور پھر یاشار کمال ایسا عظیم ناول نگار‘ ترکی کا ناول نگار.. تویاشار کمال میرا من پسند اتنا کہ میں نے اپنے پہلے پوتے کانام یاشار رکھا اس لئے کہ کرد تھا ادب کے نوبل انعام سے محروم رہا‘فرخ سہیل گوئندی جب آج سے تیس چالیس برس پیشتر میری تحریروں کی چاہت میں مبتلا میجر لین روڈ پر واقع ’کسان اینڈ کمپنی‘ میں آیا تو میں یاشار کمال کا ناول‘ امریکی مکتبہ فرینکلن کا شائع کردہ”ونڈز فرام دے پلین“ پڑھ رہا تھا اور جب گوئندی نے اپنا ذاتی اشاعتی ادارہ قائم کیا تو اس نے پہلی فرصت میں‘میدانوں سے آتی ہوائیں‘ کو اردو میں شائع کیا گوئندی کے توسط سے میں نے یاشار کمال کو اپنے پوتے یاشار کی ایک تصویر دستخط کرنے کیلئے بھیجی اور وہ تصویر میرے پوتے کے کمرے میں آویزاں ہے اور اس پر یاشار نے اپنے قلم سے لکھا ہے”یاشار کی جانب سے یاشار کیلئے“۔