امن کی خواہش 

مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اگر بہت ہی امن پسند واقع کیوں نہ ہوں آپ کے ہمسائے آ پ کے امن پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کے ہمسائے آپ کے ساتھ ہی تو تو میں میں کر کے آپ کے امن کو غارت کریں وہ آپس میں جنگ و جدل کے ساتھ بھی آپ کو ذہنی مریض بنا سکے ہیں۔ یو ں تو امن کی خواہش کس کی نہیں ہوتی مگر ضروری نہیں کہ آپکی جتنی جنگ سے نفرت ہے وہ آپ کے پڑوسیوں کی بھی ہو آپکے ہمسائے میں دونوں طرف دونوں قسم کی لوگ واقع ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو امن پسند ہوں آپ کی طرح اور ایک وہ ہوں کہ جو پتھر پھینک کر لڑائی مول لینے والے ہوں۔ظاہر ہے کہ اگر پڑوسی لڑائی مار کٹائی میں مشغول ہوں تو آپ کان بند کرکے تو نہیں بیٹھ سکتے نا۔ اور آپ کا سکون مفت میں بھی تو غارت ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ لڑائی میں ثالث کاکردار ادا کر رہے ہوں اور لڑائی آپ کی طرف ہی پلٹ جائے اس لئے کہ ہم نے بار ہا ایسا دیکھا ہے کہ دو لڑنے والوں میں مار چھڑانے والے کھا جاتے ہیں۔ اسی لئے ہم ایسے میں ہمیشہ اپنی بزدلی کو داد دیتے ہیں کہ جیسے ہی دو لوگوں کی تو تکرار میں گرمی کا عنصر شامل ہوا ہم وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور یہ دیکھنے کا موقع بھی کھو دیتے ہیں کہ لڑائی کا انجام کیا ہوا۔ اس لئے کہ وہاں سے غیر حاضر ہو کر تو یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ آخر کا ر جیت کس کی ہوئی۔ یا بات صلح پر ختم ہوئی۔کیوں کہ ایسا بار ہا ہوا ہے کہ ہم نے تپش محسوس کر کے جان بچائی مگر بعد میں پتہ چلا کہ دونوں فرق تو گپ شپ کر رہے تھے اور اب ہوٹل میں بیٹھے اپنی لڑائی کا انجام دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضروری بھی نہیں ہوتا کہ انجام کار میں صلح صفائی تھانے میں ہی ہو یہ صلح صفائی ہوٹل میں بھی ہو سکتی ے اور دوست یار اس تو تو میں میں کا فائدہ اٹھا کر بیرے کو ایک بڑا آرڈر بھی دے سکتے ہیں تاکہ لڑائی کرنے والوں پر خوشی خوشی جرمانہ کر لیا جائے اور پولیس کی بجائے دوست یار ہی اس لڑائی کے انجام سے مستفید ہوں۔ تا ہم ہماری خواہش تو ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فریقین میں صلح صفائی ہی رہے۔ اس کے بڑے فائدے ہیں۔ ایک تو خون خرابے سے بچت ہو جاتی ہے اور دوسرے اس کو ختم کرتے کرتے بہت کچھ نقصان دونوں جانب سے ہو جاتا ہے۔یہ تو عام زندگی میں معمولی واقعات کی بات ہوگئی، اب اگر تذکرہ ممالک کا ہوجائے تووہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے۔ اس معاملے میں ہم بد قسمت واقعہ ہوئے ہیں کہ ہمیں مشرق میں ایسا پڑوسی ملاہے جو جنگ و جدل میں اپنا فائدہ ڈھونڈتا ہے اور صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس ملک نے اپنے دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ رکھے ہیں۔ جی ہاں بات ہورہی ہے بھارت کی۔ اس وقت اگر ا س نے پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جنگ کی حالت بنا رکھی ہے تو دوسری طرف نیپال، برما، بنگلہ دیش اور چین کے ساتھ بھی بھارت نے سینگیں اڑائی ہیں۔ اور ہم جب لڑائی کی بات کر رہے تھے تو دو انسانوں میں لڑائی تو زیادہ سے زیادہ دوخاندانوں تک جا سکتی ہے اور وہ بھی الاما شا اللہ مگر دو ملکوں میں لڑائی ایک بہت بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لئے کہ جب دو ملک لڑائی میں جُت جائیں تو اس طرح یوں کہیں کہ دو تہذیبیں آپس میں ٹکرا گئی ہیں اور اس میں نقصان ہمیشہ ناقابل بیان ہوا کرتا ہے۔ اس میں جانوں کا ضیاع بھی بڑے پیمانے پرہوتا ہے اور اور مال کا ضیاع بھی نا قابل بیان ہوتا ہے اس سے بہت بڑی آبادی متاثر ہوتی ہے اور بعض دفعہ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک پوری آبادی ہی مٹ جاتی ہے۔ انسانی تاریخ کی دو بڑی عالمی جنگوں نے قوموں کو یہ سکھایا ہے کہ پوری انسانیت کومل جل کر رہنا چاہئے اور اگر دو ملکوں میں کوئی کھٹ مٹ ہو بھی جاتی ہے تو اس کیلئے قوموں نے ایک پلیٹ فارم بنا دیا ہے کہ جو کہ جھگڑے کے طول پکڑنے سے پہلے ہی اس کا سد باب کر دیتاہے اور فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر ان کو امن کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مگر یہاں پر یہ فارمولا بھی بھارت پر لاگو نہیں ہوتا کہ وہ کسی ثالثی اور بین الاقوامی اداروں کو بھی تسلیم نہیں کرتا اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ شریر پڑوسی قوم کو ملے یا پھر کسی فرد کودونوں صورتوں میں زندگی تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔