کسی بھی دو ملکوں کی بات ہو یادو افراد کی بات ہو جنگ چھیڑنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔مسلہ تب بنتا ہے کہ جب جنگ کا خاتمہ ہو جائے تو اس کے بعد جو کچھ جنگ نے اثرات چھوڑے ہیں ان کا سنبھالنا اصل مسئلہ ہوتا ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف ہارنے والے کے ساتھ ہی پیش نہیں آتا لیکن اس سے جیتنے والا بھی برابر کا متاثر ہوتا ہے۔ ہارنے والا تو ظاہر ہے کہ بہت کچھ کھو دیتا ہے مگر جیتنے والا بھی کچھ کم گھاٹے میں نہیں ہوتا۔ اگلے زمانے کی جنگوں میں جیتنے والا ہارنے والے کی ساری ملکیتوں کو مالک ہو جاتا تھا چاہے وہ زمین کا ٹکڑا ہو۔ ہارنے والوں کی جائدادیں ہوں اُن کی ساری املاک فاتح قوم کے قبضے میں آجاتیں۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ دو بڑی عالمی جنگوں نے انسانوں کو کیا سبق سکھایا، ان جنگوں کے بعد وہ سیکھ گئے کہ اوّل توجنگ ہونی ہی نہیں چاہئے او ر اگر جنگ ہو جائے تو بھی جو فریق ہار جاتا ہے اُس کے انسانی حقوق کا تحفظ بھی لازم ہے۔ اس طرح جنگ عظیم دو م کے بعد کئی معاہدوں پردستخط ہوئے، عالمی برادری نے ان معاہدوں کی پاسداری کاعہد بھی کیا جن میں جنگ اور جنگ کے بعد کے حالات میں پیش آنے والے مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اس طرح کے بہت سے قوانین بنائے گئے جو ہارنے والے فریق کے حقوق کا بھی تحفظ کرتے ہیں اور جیتنے والے فریق پربھی کئی ذمہ داریاں عائد کی گئیں اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ہارنے والے فریق کے علاقے پر قبضہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جب یہ بہت سی پابندیاں جنگ کے فریقوں پر لاگو کی گئیں تو اب یہ ٹھہرا کہ جنگ کا فائدہ ہی کیا ہے۔ نہ بندہ دوسرے کی زمین پر قابض ہو سکے، نہ اُس کسی کے املاک پر اپنا حق جتاسکے اور نہ اُس کو غلا م بنا سکے تو پھر جنگ کا فائدہ ہی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد کچھ ملکوں نے دوسروں پر اجارہ داری کی کوشش تو کی مگر ان کو اس طرح کے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ سالوں تک لڑ کر بھی جنگ نہ جیت سکے او ر ان کو خالی ہاتھ لوٹ کر جانا پڑا اس میں زیادہ نقصان امریکہ کو اٹھانا پڑا۔ امریکہ دو بڑی عالمی جنگوں کے بعد ایک طرح سے عالمی تھانیداربننے کے خواب دیکھنے لگا ور اس شوق میں اس نے کئی ملکوں کے ساتھ سینگ اڑانے کی کوشش کی مگر بری طرح خفت اٹھانا پڑی کہ نہ تو جنگ جیتی جا سکی اور نہ ہی کوئی دوسرے فوائد حاصل ہو سکے۔۔مشرق بعید میں اس کی کاروائیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ امریکہ ایک چھوٹی سے مملکت کو بھی فتح نہیں کر سکتا۔ کوریا ہو یا ویت نام اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر ایک قوم ڈٹ جائے تو اُسے کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ ویت نام میں امریکہ نے کتنا زور لگایا اور کتنا عرصہ خوار ہوتا رہا مگر کیا ہاتھ آیا۔ سوائے رسوائی کے۔ اسی طرح جہاں بھی اس زمانے میں ملکوں نے اپنی حدود بڑھانے کی کوششیں کیں تو انہوں نے رسوائی ہی خریدی۔ دوسری جنگ عظیم میں روس نے اپنے آس پاس کی چھوٹی ریاستوں کو فتح کر کے قبضہ کیامگر اُسے پھر ان ریاستوں کو واپس آزاد کرنا پڑا۔ اس طرح اب عالمی سطح پر کوئی بھی ملک کسی دوسری ریاست کو اس کی مرضی کے خلاف اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکتا۔ چاہے اُسے یونین کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے۔ اب اجارہ داری کا کانسیپٹ ختم ہوتا جا رہاہے اور ہر ریاست اپنی آزدی سے اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے۔افغانستان میں امریکہ کی شکست اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔افغانستان ایک ایسا ملک ہے کہ کوئی بھی ملک اس کو فتح کرنے کے خواب کو تعبیر کی شکل نہیں دے سکا۔ اگر امریکہ بھی افغانستان کی تاریخ کو پڑھ لیتا ور اس کو سمجھ بھی لیتا تو اُسے یہاں پنگا لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔