تنخواہ دار کی تنخواہ چاہے سینکڑوں میں ہو، ہزاروں میں ہو یا لاکھوں میں ہو اُن کے اخراجات اُن کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور مہینے کی بیس تاریخ کے بعد کے دن (اگر تنخوہ معقول ہو تو ورنہ پندرہ تاریخ تک چل جائے تو بڑی بات ہے) تو گزارہ اُدھار پر ہی ہوتا ہے۔ اور ملک میں سب سے بڑا طبقہ کوئی ہے تو یہی تنخواہ دار طبقہ ہے۔ ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ تنخواہ چاہے جتنی بھی ہو وہ بمشکل پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس تاریخ تک چلتی ہے اُس کے بعد قرض ہی ایک ایسا معقول طریقہ ہے کہ جس سے باقی کے دن پورے کئے جاتے ہیں او ر جیسے ہی تنخواہ کا دن آتا ہے تو قر ض خواہوں کا ہجوم گیٹ کے باہر کھڑا ہوتا ہے اور جو کچھ اندر سے لایا جاتا ہے وہ ان قرض خواہوں کے حوالے کر کے گھر آ جاتے ہیں اور گھر والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ہم جب پہلی دفعہ اپنی فیملی کو اپنے ساتھ شہر لائے اور پہلامہینہ تنخواہ لے کر گھر آئے تو بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں غالبا ً ایک سو روپیہ تھما یا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کی تنخواہ سو روپیہ ہے۔ ہم نے کہا تنخواہ تو زیادہ ہے مگر یہ جو سارا مہینہ آپ لوگ کھاتے پیتے رہے ہیں یہ دکان سے ہی تو آتا رہا ہے اور اب جو تنخواملی ہے تو اس کاا ُدھار ختم کرکے یہی کچھ بچا ہے۔ بیگم نے کہا کہ اب یوں کریں کہ میں اس رقم کے ساتھ گزارہ کروں گی مگرمجھے دکان کا اُدھار نہیں چاہئے۔ وہ دن اور آج کا دن ہم نے کبھی دکان سے اُدھا رلے کر نہیں آئے۔ گھر کی جوضرورت ہوتی ہے وہ بیگم سے رقم لے کر آ جاتے ہیں جس سے ہماری خریداری میں بھی ضرورت سے زیادہ والی بات ختم ہو گئی اور ما شا اللہ جب تک ملازمت میں رہے کبھی اُدھار والی بات نہیں ہو سکی۔اور ابھی تک جب ہم ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں کبھی دکان سے اُدھار لے کر نہیں آئے اور مزے میں ہیں۔ بچے بھی ماشا اللہ سیٹ ہو گئے ہیں اور بال بچے دار ہیں مگر ان کو بھی یہی کہا ہے کہ دکان کے اُدھار سے بچنا ہے۔ اور ماشا اللہ وہ ہماری نصیحت پر عمل کر کے خوشحال زندگی گزا ر رہے ہیں، دکان کے ا ُدھا ر کا ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ دکان دار نے تو اشیاء کو سجا کر رکھا ہوتا ہے اور جب انسان دُکان میں جاتا ہے اور اُدھار چل رہا ہو تا بہت سی ایسی اشیاء بھی اٹھا لاتا ہے کہ جن کی گھر میں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یوں تنخواہ دکان دار ہی کے حوالے ہو جاتی ہے اور جب نقد کی بات ہو تو بغیر ضرورت کوئی بھی چیز خریدی نہیں جاتی۔ یوں انسان اُدھار کے بوجھ اٹھانے سے بچ جاتا ہے۔یہی بات ملک پر بھی اپلائی ہوتی ہے کہ جب ملک کیلئے اُدھار لیاجاتاہے تو کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس اُدھار کے بوجھ کو ملک کے سر سے کیسے اُتارا جائے گا۔ہر حکومت یہی سوچتی ہے کہ آنے والے اُدھار ادا کر دیں گے اسی لئے جو اُدھا ر لیا جاتا ہے وہ اللوں تللوں میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور کوئی صورت ان سے چھٹکارے کی نظر نہیں آتی اسلئے کہ جو قرضے لئے جاتے ہیں وہ اس مد میں خرچ نہیں ہوتے کہ جس کیلئے پیسہ حاصل کیا جاتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ اُدھار لیتے وقت کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس قرضے کو واپس بھی کرنا ہے۔ اگر یہ احساس کر لیا جائے تو جس مد میں قرضہ لیا جاتاہے اُس میں خرچ ہو تا تو قرضہ جات ختم بھی ہو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا اور قرضے سر پر چڑھتے ہی جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے بیرون ملک اثاثوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔