اپوزیشن کی سنیں تو ملک کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہے، اور ڈوب رہا ہے مگردوسری طرف کی تسلی آمیز باتوں کے ساتھ حکومت کی آئینی اور انتخابی اصلاحات کی پیش قدمی سے ایسا لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہے‘لگتا تو یہ ہے کہ سیاست ہو رہی ہے اوردونوں طرف سے آنے والے انتخابات کیلئے میدان کو گرم کیا جا رہا ہے۔د وسری طرف الیکٹرانک میڈیا میں واویلہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی زلزلہ آیاہوا ہے اور سیاسی زلزلے کے حوالے سے اتنی خبریں اور رپورٹیں آرہی ہیں کہ چند دن قبل بلوچستان میں جو زلزلہ آیا اس کے نتیجے میں گھروں سے محروم افراد کی مشکلات اور ان کی تکالیف پس منظر میں چلی گئیں۔ بلوچستان میں زلز لے سے تیس سے زائدشہری ملبے تلے دب کر جاں بحق ہو گئے 300 سے زیادہ زخمی ہیں۔بلوچستان زلزلوں کیلئے حساس سمجھا جانے والا علاقہ ہے جو ایسے ارضی پٹیوں پر واقع ہے جہاں زلزلوں کے امکانات موجود ہیں۔دوسری طرف بلوچستان کے شہری آبادی کو چھوڑ کر گاؤں کی اکثر آبادی ریت اور مٹی کے ایسے گھروندے ہیں جو ذرا بارش ہو جائے تو بہہ جاتے ہیں، آندھی آئے تو چھتیں اُڑ جاتی ہیں، زلزلے میں بکھر جاتے ہیں اور ظاہر ہے ان میں بسنے والے انسان ہی ہوتے ہیں اس وقت ایک تہائی صوبہ تباہ حالی کا شکار ہے، حکومت کا کام ہوتا ہے کہ اس موقع پر بے گھروں کو شیلٹر دے، کھانے پینے کا سامان دے، مگر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سیاسی زلزلے کی زد میں ہے اور ایسے حالات میں کہ جب وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے یقینا حکومت کی توجہ تحریک کو ناکام بنانے پر مرکوز ہے جبکہ دوسری طرف عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی توجہ اس کو کامیاب بنانے پر مرکوز ہے۔ وہ جو رزق خاک ہونے والے خاک نشین ہیں کی داد رسی کون کریگا۔ فوجی جوان محدود حد تک متاثرہ علاقوں میں خوراک بھی پہنچا رہے ہیں، اور زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتالوں تک منتقل کر رہے ہیں، لیکن یہ ذمہ داری تو صوبائی حکومت کی ہوتی ہے، کہ وہ اس سلسلے میں سرگرمی دکھائے اور متاثرین کی مدد کرکے ان کو موسم کے شدت سے بچائے۔ان کو گھر دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد دے اور جلد از جلد بحالی کے کاموں کو تکمیل تک پہنچائے۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں کبھی سیاست پروان چڑھی نہ سیاسی کلچر قائم ہوا اور نہ سیاسی جماعتوں کو منظم کیا جاسکا، قبائلی گروپ بندیوں کی بنیاد پر حکومت بنتی ہے اور انہی بنیادوں پر گر جاتی ہے، اب بھی ایک طرف کابینہ مستعفی ہو چکی ہے تو دوسری طرف سے نئے مذاکرات اور مفاہمت کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ کوئی بحران نہیں، اصل بحران زلزلے کے نتیجے میں بے گھر خاندانوں کیلئے ہے، جن کو سرچھپانے کیلئے شیلٹر اور کھانے کے راشن کے بحران کا سامنا ہے، جس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی میں اضافہ ہورہا ہے اور موسم ٹھنڈا ہونے کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کی مشکلات میں کافی اضافہ ہوسکتا ہے۔بلوچستان ایک وسیع علاقہ ہے جہاں اب بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں تک رسائی آسان نہیں اس حوالے سے یہاں پر جدید انفراسٹرکچر اور مواصلات کے نظام کو تشکیل دینا ضروری ہے اس طرح صوبے کے طول و عرض میں صحت سہولیات کی فراہمی بھی اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ حالیہ زلزلے کے زخمیوں کو بعض صورتوں میں سینکڑوں میل دور ہسپتالوں تک لے جایا گیا جن میں سے کئی جانبر نہ ہوسکے۔ اگر قریب ہی ہسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز ہوتے تو بہت سی جانوں کو بچایا جا سکتا تھااب بھی وقت ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے کیونکہ جیسے پہلے بتایا کہ یہ علاقہ زلزلوں کیلئے حساس ہے، مستقبل کی منصوبہ بندی بروقت کی جائے تو تب ہی آفات کی صورت میں جانی نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔