بے شک بیچ لگژری ہوٹل کی شبوں میں اس کے سمندروں پر چاندی کے آبی پرندے پرواز کرتے تھے لیکن اس کی سویروں میں سمندر کی آلودگی اور زوال کی بو بھی بہت ناگوار گزرتی تھی‘ کراچی کی ایک اور صبح تھی جب میرے نام کی ریڈرز ورلڈ کے کچھ پرجوش اور مجھے تحریروں کے حوالے سے چاہنے والے ممبران مجھے ملنے کے لئے چلے آئے اور ان میں ڈاکٹر نازش بھی شامل تھیں‘ ڈاکٹر نازش کے علاوہ مزملہ شفیق تھیں جنہوں نے بلتستان کے بارے میں ایک انوکھا سفرنامہ لکھا اور کینتھ رنگ اور غسان عبداللہ کی نہایت اہم دستاویز ”فلسطین سے ادھوری ملاقات“ کا اردو میں ترجمہ کیا اور یہ ایک بہت بڑا تخلیقی کام ہے جو ہمیں فلسطین کے مزید نزدیک لے جائے گا‘ سب لوگوں نے آپا تہمینہ صابر کی کمی کو بے حد محسوس کیا جو ریڈرز ورلڈ کی ایک بہت دھانسو کارکن ہیں‘ البتہ آنٹی فریال ثمان نے اپنی سٹائلش موجودگی سے اس کمی کو بہت حد تک پورا کردیا‘ فریال ایک ایسی شاندار کوہ نورد ہیں کہ جب جی چاہے اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کو روتا چھوڑ کر بلندپہاڑیوں کو نکل جاتی ہیں اور پہاڑ ان کی آمد سے تھر تھر کانپتے ہیں‘ یہاں تک کہ وہ ”رش لیک“ جو پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے کا ٹریک بھی کرچکی ہیں اور وہ اتنا جان لیوا اور دشوار ٹریک ہے کہ میں نے متعدد بار کمر ہمت باندھی اور پھر خوفزدہ ہوکر کھول دی ان کے قریبی لوگ انہیں ”فی میل تارڑ“ کے لقب سے پکارتے ہیں‘اور وہاں بی بی بخاری بھی موجود تھیں‘ جنہوں نے یقینا کوہ نوردی کا ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے‘ بی بی بخاری سراسر ایک روپوش بی بی ہیں سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی‘اور وہ اس مکمل حجاب پوشی کی حالت میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے دامن تک مارو مار کرتی پہنچ گئی تھیں‘ انہوں نے بے شک کے ٹو کا چہرہ دیکھا لیکن مجال ہے کے ٹو کو اپنا چہرہ دکھایا ہو‘ عین ممکن ہے کہ کے ٹو انہیں اپنے دامن میں دیکھ کر گنگنانے لگا ہو کہ ”ذرا چہرہ تو دکھاؤ“ گویا یہ سب لوگ صرف مجھے پڑھتے نہیں تھے خود بھی لکھتے تھے اور میری کوہ نوردیوں کے راستوں پر جاتے تھے‘ یہ نہیں کہ اس محبت کی محفل میں صرف خواتین ہی شامل تھیں مرد بھی تھے لیکن مجھے موئے مردوں کے نام یاد نہیں رہتے اور ہاں ہوٹل کے برابر میں سمندر کنارے رہائش پذیر لمبی لڑکی اقصیٰ بھی مجھے ملنے کیلئے آئی‘ عجیب لڑکی ہے یورپ جاکر جہازوں سے پیراشوٹ باندھ کر چھلانگیں لگاتی رہتی ہے‘ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا ہنگامہ کراچی آرٹس کونسل میں مسلسل بپا تھا اور ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ صرف اسلئے کہ اسے برپا کرنیوالا احمد شاہ‘ شاہ جنات کہ وہ ہر جگہ موجود رہتا تھا‘ انسان نہیں ایک چھلاوہ لگتا تھا‘ نہ کھاتا پیتا تھا نہ سوتا تھا‘ لوگ کہتے تھے کہ وہ ایک ہاتھی کی یادداشت رکھتا تھا‘ نہ بھولتا تھا نہ فراموش کرتا تھا‘ ہر الیکشن بھاری اکثریت سے اپنی کارکردگی کی وجہ سے جیتتا تھا‘ میں نے کچھ برس پہلے کہا تھا کہ ملک بھر کی آرٹس کونسلوں اور ان میں الحمرا لاہور بھی شامل ہے کچھ مدت کیلئے احمد شاہ کے سپرد کردیں اور پھر دیکھو احمد شاہ کیا کرتا ہے‘ ”یاد رفتگاں“ کے ایک اداس کردینے والے سیشن میں ایوب خاور نے کیا ہی تخلیقی محبت کیساتھ ہمارے منو بھائی کو یاد کیا‘ عرفان جاوید نے احمد بشیر کے بارے میں اپنا خاکہ پیش کیا کہ وہ خاک نشینوں کو بھی اپنے موئے قلم سے زندہ کردینے کا ہنرجانتا ہے‘افتخار عارف ہمیشہ سے ’کسوٹی‘ کے زمانوں سے انگلیاں چٹخاتے ایک مجذوبیت کے عالم میں گفتگو کرتے ہیں اگرچہ ان کی مجذوبیت بہت سوچی سمجھی اور نپی تلی ہوتی ہے‘ لیکن ان دنوں وہ واقعی مجذوب سے ہوگئے ہیں‘ بہک سے گئے ہیں انہوں نے ساقی فاروقی کی گمشدہ یادوں کو دریافت کیا اور تب مجھے یاد آیا کہ ساقی ہمیشہ اپنی تازہ ترین کتاب نہایت تردد سے مجھے بھجواتے تھے اور میری رائے کی خواہش کرتے تھے‘ ان سے صرف چند ایک ملاقاتیں شاید پچیس برس پیشتر ہوئیں اور اکثر کشور ناہید کے ڈیرے پر ہوئیں‘تب انکی آسٹرین بیوی گنڈی بھی ان کے ہمراہ تھیں اور ساقی ہمیشہ انہیں ’غنڈی‘ کہہ کر پکارتے‘ زیادہ تر اپنے پالتو کچھوے کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے‘ اس کچھوے کے بارے میں انہوں نے بہت کچھوا پرور شاعری بھی کی‘ آرٹس کونسل کے وسیع ہال کی سٹیج پر اس شب ایک ایسے ترقی پسند اور سرخ سویرے کے خواب دیکھنے والے ماضی کی بجھتی ہوئی تصویریں زندہ ہوئیں جو تاریخ کی کتابوں میں دفن ہوچکی تھیں‘ برصغیر کے ایک بہت پسندیدہ کمیونسٹ لیڈر سجاد ظہیر کی بیگم رضیہ سجاد ظہیر کو ایک افسانہ نگار اور باہمت سرخ خاتون کے طور پر یاد کیا گیا‘ سٹیج پر سب کے سب ایسے لوگ براجمان تھے جن کے ”سرخے“ ہونے میں کچھ شک نہ تھا‘ انکے سوا وہاں ”اے غزال شب“ کے عارف نقوی بھی موجود تھے اور میرے بہت عزیز دوست راحت سعید بھی پرانے وقتوں کو یاد کررہے تھے‘ اس شب راحت سعید نے سجاد ظہیر کے کنبے کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کر رکھا تھا‘ شدید خواہش کے باوجود میں اس میں شریک نہ ہوسکا‘ایک اور بہت اہم سیشن ”تراجم اور دنیا سے رابطہ“ کے حوالے سے تھا اور بہت بھرپور تھا‘ جس میں ڈاکٹر انوار احمد‘ رضا علی عابدی‘ فن لینڈ کے ارشد فاروق‘ امریکہ کے سعید نقوی‘ ترکی کے خلیل طوقار اور ایران کی وفانیردان منش نے شرکت کی‘وفانیردان منش تہران یونیورسٹی میں میرے سفرناموں کو ایک خصوصی نصاب میں شامل کرنے کی خواہش رکھتی تھیں‘ آخر شب کے ہم نشیں تھے کامران سلیم عرفان جاوید اورمیرے لئے کراچی کی کشش‘ میرے دوست بھی اور میرے دل کو چھونے والے ناول نگار اور صحافی محمد حنیف‘ میرے کمرے میں موجود تھے‘ میں چاہتا تھا کہ میں حنیف کے تازہ ترین ناول ”دے ایڈبرڈز“ کے بارے میں گفتگو کروں کہ اس ناول نے‘ اگرچہ میں پہلے سے قائل تھا‘ مزید قائل کردیا کہ حنیف کا یہ ناول ایک شاہکار ہے‘ یہ ایک یادگار محفل تھی جو بھلائے سے نہ بھولے گی‘ اور تب کھلی کھڑکی میں سے سمندروں پر اڑانیں کرتے چاندی کے پرندوں میں سے ایک داخل ہوا‘ حنیف اور میرے درمیان جو میز تھی اس پر بیٹھ گیا میں نے پوچھا ”تو کون ہے؟“ پرندے نے کہا ”میں وہ ہوں جسکی تمہیں خبر نہیں‘ میں عطار کا ایک پرندہ ہوں اور مجھے بھی سچ کی تلاش ہے‘ مجھے ٹلہ جوگیاں کا راستہ بتا دو جدھر تارڑ کے پرندے اڑان کرتے چلے جارہے ہیں۔