انٹری ٹیسٹ 

جب پہلے پہل انٹری ٹیسٹ کا شوشا چھوڑا گیا تو وجہ یہ تھی کہ طلباء کی ایک کثیر تعداد نے اتنے زیادہ نمبر لے لئے تھے کہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ کس طرح میرٹ بنایا جائے اس لئے انہوں نے ایک نیا امتحان طلباء کے سر پر بٹھا دیا کہ وہ داخلے کیلئے بھی ٹسٹ دیں۔اب صورت حال یہ بن گئی ہے کہ پروفیشنل کالجوں کے علاوہ عام کالج بھی طلبا کے یونیورسٹی یا بورڈ کے نتائج پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہماری طالب علمی کے زمانے میں جو نمبر بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان میں ملے وہی میرٹ میں استعمال ہوتے تھے اس لئے کہ ہمارے زمانے میں جو سلیبس پڑھائے جاتے تھے وہ ایسے تھے کہ جو طالب علم سیکنڈ ڈویژن میں بھی پاس ہوتا تھا تو پروفیشنل کالج اُس کے تعلیم پر شک نہیں کرتے تھے او ر اُسے بخوشی داخلہ دے دیتے تھے۔ مگر آپ کا سلیبس جب ٹیکسٹ بک تک ہی محدود اوراور ٹیکسٹ بکس کا یہ عالم ہے کہ اس کے اگر دس باب تیار کر لئے جائیں تو طالب علم آسانی سے نوے فی صد نمبر لے سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ممتحن ٹیکسٹ بک کے باہر سے کوئی سوال دے نہیں سکتااورٹیکسٹ بکس اتنی ہیں کہ کوئی بھی طالب علم تھوڑی سے کوشش کے ساتھ اچھی فرسٹ ڈویژن لے جاتا ہے۔ اب اس میں طالب علم کا تو کوئی قصور نہیں ہے اُسے تو جو کچھ پوچھا گیا اُس نے اُس کا صحیح جواب دے دیا اور ممتحن نے اُسے پورے نمبر دے دیئے۔اگر موجودہ سلیبس کا مقابلہ پرانے طالب علموں کے سلیبس سے کیا جائے تو پرانے طلباء کیلئے ٹیکسٹ بکس نہیں تھیں صرف انگریزی کی ٹیکسٹ بک ہوتی تھی اور باقی انتخابی مضامین کی ریفرنس بکس ہوتی تھیں اور طالب علم کو اس سلیبس کو کور کرنے کیلئے دسیوں کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتاتھا اور جو طالب علم اچھی سیکنڈ ڈویژن بھی لیتا تھا تو اُس کے پاس اچھا خاصا علم ہوتا تھا اسی لئے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں سیکنڈ ڈویژن طلباء کو بھی آسانی سے داخلہ مل جاتا تھا۔ اب ٹیکسٹ بکس کا زمانہ ہے۔طالب علم کسی بھی کتاب سے چھ سات باب تیار کر لے تو وہ بہت اچھی فرسٹ کلا س میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس میں قصور طالب علم کا نہیں کہ اُسے دوبارہ داخلے کے لئے امتحان دینا پڑے۔ آپ اپنے سلیبس کو بہتر کریں تاکہ جو اہل طلباء ہیں وہی سامنے آئیں۔ اب جو داخلے کیلئے امتحان لئے جاتے ہیں ہماری نظر میں تو یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ طالب علم کو جو سلیبس آپ نے دیا اُس نے تیار کیا اور اچھے نمبر لئے۔ اُس کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ مزید امتحان کے بغیر ہی اگلی کلاس میں داخلہ لے سکے چاہے وہ عام ہو یا پروفیشنل ہو۔ میرٹ پہلے کی طرح ہی انٹر کے امتحان سے لی جائے یا انٹر اور میٹرک کے امتحانوں کا اوسط نکال لیا جائے۔ انٹری ٹسٹ ہماری نظر میں وقت کا ضیاع ہے۔ اور دیکھا جا رہا ہے کہ جو طالب علم اچھے نمبر لے کر بھی انٹر کرتا ہے وہ میڈیکل یا انجینئرنگ کالج کے داخلے کیلئے کوالیفائی نہیں کر رہا اس لئے کہ جو سلیبس اُس نے پڑھا ہوا ہے وہ تو اگلے ٹیسٹوں میں نہیں دیکھا جاتا۔ انٹری ٹیسٹوں کا تو اپنا ہی طریقہ ہے جو بہت زیادہ علم کا تقاضہ کرتا ہے جب کہ طلباء اپنی ٹیکسٹ کی کتابوں سے باہر ہی نہیں جاتے۔ اس لئے بہت اہل طلباء بھی پروفیشنل کالجوں میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ سائنس کے سلیبس کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ٹیکسٹ بکس سے پرہیز کیا جائے اور ان کو ریفرنس بکس کی جانب لے جایا جائے۔ اس طرح ایک تو طلباء کے علم میں صحیح اضافہ ہو گا اور ان کو کسی دوسرے انٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہو گی اور یوں وقت کی بھی بچت ہو گی اور ہمیں ایک معیاری تعلیم سے لیس طلباء بھی میسر آئیں گے۔ اگر ہم نے واقعی اس ملک کیلئے بہترین ڈاکٹر اور بہترین انجینئر پیدا کرنے ہیں تو ہمیں موجودہ نظام نصاب، امتحان اور داخلے کیلئے ٹیسٹوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔ کیونکہ کسی بھی ملکی ترقی کا انحصار جہاں نصابی تعلیم پر ہے وہاں امتحانی طریقہ کار بھی اہم ہے کیونکہ اس سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نصابی تعلیم سے کس قدر فائدہ اٹھایا جا سکا ہے۔