اس میں تو شاید کسی کو شک نہیں ہوگا کہ معاملہ تکنیکی یا علمی، طبی ہو یا معاشی، ان کے بارے میں صرف اس صرف اس شخص یا فرد کو علم یا جانکاری نہیں ہوتی، جو ان معاملات کا ذمہ دار ہویا اس کام کی تنخواہ اور مراعات لیتا ہو، باقی سارا ملک ماہرین کی آماجگاہ ہے‘ چند دن پہلے ایسے ہی کچھ نابغوں کی محفل میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا، گفتگو کے بعدمتفقہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ ملک کے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ حکومت اپنے زر مبادلہ کے محفوظ ذخائر میں سے 10، 12 ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینکے، ڈالر کا ریٹ فورا 120 روپے پر آجائے گا، پیٹرول 70 روپے لیٹر ہو جائے گا، امپورٹ چینی 50 روپے کلو ہو جائے گی اور سب مسائل ختم،ویسے اگر یہ مسئلہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو کیا حکومت نہیں چاہے گی کہ راتوں رات یہ مسئلہ حل ہو۔کوئی بھی حکمران نہیں چاہتا کہ عوام میں اس کی مقبولیت کم ہو اور اس کو جو مدت حکومت کرنے کیلئے ملی ہے اس میں عوام تکلیف میں رہیں۔ہر حکمران کی خواہش ہوتی ہے کہ عوام اس سے خوش رہیں اور بار بار ان کو حکومت کا موقع دیتے رہیں۔ اس وقت بھی حکومت اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ معاشی مشکلات کے باوجود عوام کو کسی نہ کسی حد تک ریلیف دے۔یہ الگ بات ہے کہ یہاں پر جن کے پاس بھلے وقتوں کی کمائی کی دولت ہے، یہ نقد ہے یا جائیداد کی صورت میں، وہی ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر موقع سے فائدہ اٹھانے والے اور دولت کمانے والے ہر دور میں اپنے مفادات کا تحفظ کر نے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کیونکہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنے والے کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ عوام جلسے جلوسوں میں لگ جاتے ہیں اوریہ اپنا دا ؤچلا جاتے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ اگر ہر کوئی حصہ بقدر جثہ ٹیکس دے اور قومی خزانے میں اپنے ذمے واجب رقم ڈالے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکی خزانے سے ہی ملکی ترقی کا سفر جاری رہے اور عوام کی ضروریات بھی پوری ہوں۔ کسی زمانے میں اپوزیشن عوام کی ڈھارس بندھانے اور حکومت کو راہ راست پر لانے کیلئے آگے آتی تھی، عوام کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اگر حکومت کمزور ہے اس کا متبادل موجود ہے، مشکل کے دن کٹ جائیں گے، تجربے کار حکمران ہماری مشکلات کا مستقل حل کر دیں گے، مگر اس بار تو اپوزیشن بھی نرالی ملی ہے، اس بات کا رونا تو رو رہی ہے کہ ہم حکمران نہیں بن سکے اور شاید اسی بات کا عوام سے انتقام لے رہی ہے کہ عمران خان کو کیوں لائے۔ اب بھی ہر سیاسی جماعت اپنے لیے اقتدار کا دروازہ ڈھونڈ رہی ہے، لیکن عوام کے مسائل سے کسی کا سروکار نہیں۔اس بات میں بھی وزن ہے کہ جو اب مہنگائی کے خلاف اتحاد کر بیٹھے ہیں اور جلسے جلوسوں کی مہم پر ہیں تو خود یہ بھی کئی بار حکومت کر چکے ہیں اور عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ وہ سب کچھ جلد بھول جائیں، جن مسائل کا سامنا عوام کو اب ہے اس وقت بھی تھا۔اسی لئے تو انہوں نے ان کو چھوڑ کر متبادل قیادت چننے کافیصلہ کیا۔