بڑی جیت

یوں تو اس میچ کو کئی دن ہوگئے اور اس کے بعد بھی قومی ٹیم نے یادگار فتح نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے حاصل کی تاہم بھارت کو جو شکست ہوئی ہے وہ عرصہ دراز تک یاد رہے گی کیونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی فتح اور بھارت کی شکست دونوں ریکارڈ ساز ہیں۔یوں تو پاکستان اور ہندوستان فرسٹ ڈور پڑوسی ہیں مگر ان کی مخا صمت شروع دن سے ہی قائم ہے۔ پاکستا ن کے وجود میں آنے سے آج تک ہندوستان یہ باور (بلکہ ہضم) نہیں کر سکا کہ پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے۔ اس کی کوشش شروع دن سے یہی ہے کہ کسی طرح اس کو زک پہنچائی جائے۔ وہ علاقے جو تقسیم کے فارمولے سے پاکستان کا حصہ تھے وہ بھی ہندوستان نے ہڑپ کر لئے ہیں۔ایک ریاست جموں کشمیر ہے کہ ابھی تک اُس کو ہندوستان ہضم نہیں کر سکا اور نہ ہی اُسے چھوڑ پایا ہے۔ یہ قضیہ جو  1947 سے چلا ابھی تک چل ہی رہا ہے اور کشمیر کو ابھی تک رائے شماری کا حق نہیں مل سکا کہ جو اس ریاست کیلئے معاہدہ کیا گیا تھا۔ ہندوستا ن اور پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر اس سے قبل تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔اب ہندوستان اور پاکستان میں اور جنگ تو نہیں ہو رہی مگر کھیلوں کے میدان میں ضرور جنگ کا سا سماں پیداہوجاتا ہے۔خصوصاًکرکٹ میں تو یو ں لگتاہے کہ یہ کھیل نہیں بلکہ کھیل سے بڑھ کر کوئی مقابلہ ہے۔ دونوں جانب میچ سے پہلے ایک جوش و خروش کو اُبھار دیا جاتا ہے اور کھیل کے میدان میں اترنے سے پہلے ہی دونوں جانب سے کھیل پر اس طرح تبصرے شروع ہو جاتے ہیں کہ جیسے دونوں ملکوں میں حقیقی جنگ شروع ہونے والی ہے اور جس دن میچ ہونا ہوتا ہے تو دونوں ملکوں میں جنگ کا سا سماں بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے پرکھلاڑی فقرے کستے ہیں اور اپنی جیت کے نعرے مارتے نظر آتے ہیں اور جس دن ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو وہ دن دیکھنے والا ہوتا ہے کہ جب تک ایک دو ہو نہیں رہتی عوام بڑی بڑی سکرینوں اور ٹی وی کے سامنے سے اٹھتے نہیں۔ کھیل کے دوران ہر ہر بال پر اس طرح داد دی جاتی ے کہ جیسے کھلاڑی اُن کی آواز کو سن رہے ہیں۔ ساتھ ہی پرانے کھلاڑی اور تبصر ہ نگار ایک ایک بال پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے سے لے کر کھیل ختم ہونے اور اُس کے دو تین دن بعد تک کھیل پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ یوں تو کرکٹ ایک کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔جب دوٹیمیں میدان میں ترتی ہیں تو لامحالہ ایک ہی نے جیتنا ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے نتیجے سے بہت جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔حال ہی میں تو بھارت کی ہار پرمقبوضہ وادی اور بھارت کے دیگر مقامات میں مقیم کشمیری طلبہ پر حملے کئے گئے۔کہ انہوں نے پاکستان کی جیت پر خوشی کااظہار کیوں کیا۔ویسے جب مقابلے ورلڈ کپ کیلئے ہو ں تو پھر تو سارے ٹورنامنٹ میں اگرکوئی مقابلہ دیکھنے والاہوتا ہے تو وہ ان ہی دوٹیموں کاہوتا ہے۔ہم نے ابھی تک کسی دوسری ٹیم کے متعلق ایسے تبصرے نہ دیکھے نہ سنے کہ جو ہمارے ہاں پاکستان اور ہندوستان کی ٹیموں کے درمیان میچ پر ہوتے ہیں اور جس طرح میچ سے پہلے ایک جوش و خروش کو اُبھارا جا تاہے اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔موجودہ ٹورنامنٹ میں جو پاکستان اور ہندوستان کی ٹیموں میں مقابلہ ہو ااُس میں بھی اسی طرح کا جوش و خروش تو دونوں جانب ہی تھا کہ جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہندوستانی ماہرین اور پرانے کھلاڑی جس طرح پاکستانی ٹیم کیلئے حقارت آمیز باتیں کر رہے تھے وہ اپنی جگہ مگر جب مقابلہ ہوا تو تو پاکستان نے انڈین ٹیم کو پچھاڑدیا تو ہندوستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ اور عوام اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے پیچھے لٹھ لئے کر نکل پڑے ہیں۔ا ور وہ تبصرہ نگار کہ جو کہ رہے تھے کہ پاکستا ن کو پیس کر رکھ دیں گے اُن کے تبصرے سننے کے لائق ہیں۔ یو ں لگتا ہے کہ ان پر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا محاورہ منطبق ہو گیا ہے۔ ویسے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ کھیل کو صرف کھیل تک محدود رہنا چاہئے مگر جس طرح پاکستانی ٹیم نے انڈین ٹیم کو ہرایا ہے وہ قابل صد ستائش ہے اور یادگار ہے۔ قومی ٹیم نے ٹورنامنٹ کی ابتداء سے جس طرح یادگار اور ناقابل فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ امید غالب ہوگئی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم یہ ٹائٹل اپنے نام کر لے گی اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ٹیم میں نئے اور پرانے کھلاڑیوں کے حسین امتزاج سے یہ ایک فائٹنگ ٹیم بن گئی ہے جس کا مقابلہ کرنا حریف کے لئے آسان نہیں ہوگا۔