ہم اکثر فخر سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں بہترین ڈاکٹر پاکستان کے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان سے ملک میں کام لینے اور ان کے علم اور تجربے سے بھر پور استفادہ نہیں ہورہا۔ لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یہ قوم فخر کا باعث بننے والے ڈاکٹر، سرجن اور انجینئر بلکہ پائلٹ آج سے پچاس سال پہلے روایتی ٹاٹ سکولوں اور مقامی کالج میں تعلیم حاصل کرکے پروفیشنل لائف میں آئے، مقامی اداروں میں تربیت حاصل کی اور پھر دنیا کے مقابل آکر اپنا آپ منوایا۔ نصف صدی پہلے تک انٹرمیڈیٹ کا امتحان کلیدی حیثیت رکھتا تھا، ہر پروفیشن کیلئے، میڈیکل ہو یا آرمڈ فورسز، ایف ایس سی کے حاصل کردہ نمبر ہی ہوا کرتے تھے اور اس لحاظ سے تعلیمی کیرئیر میں ایف ایس سی کے امتحان کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی تھی، جس کیلئے نصاب سے لے کر سٹڈی پروگرام اور طلبہ کی تیاری کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا، پاکستان میں ایک ادارہ پی ایم ڈی سی (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل) ایم بی بی ایس کے فارغ التحصیل طلبہ و ڈاکٹروں کو رجسٹر کرتا اور ان کے معاملات ریگولیٹ کرتا، طبی شعبوں میں تخصیص سپیشلائزیشن کیلئے ایک ادارہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز تھا، جس کی نگرانی میں تربیت کے بعد سپیشلسٹ ڈاکٹر دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی اداروں کی نیک نامی کا باعث بنتے تھے۔ پاکستان میں تعلیم کے نظام بالخصوص امتحانی نظام کی تباہی 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی جہاں میرٹ کی بجائے مختلف کوٹوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد امتحانی نظام پر اعتماد ختم ہو گیا۔ اس سال تو حد ہی ہو گئی، پنجاب کے تعلیمی بورڈز میں ایف ایس سی کے امتحان میں 70 فیصد سے زائد امیدواروں نے سو فیصد نمبر حاصل کیے، اس سے خود تعلیمی بورڈ کے امتحان کے انتظامی ذمہ داران بھی حیران و پریشان ہیں، لیکن بورڈ میں سو فیصد نمبر لینے والے بچے پی ایم ڈی سی کے زیر انتظام میڈیکل کالج میں داخلے کے امتحان ایم ڈی کیٹ اور دیگر پروفیشنل اداروں کے مقابلے کے امتحان میں فیل ہو گئے، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج میں داخلے کے امتحانات صوبے لیتے تھے تو کسی حد تک بھرم قائم تھا، اس سال پی ایم سی نے ایم ڈی کیٹ نے امتحانات لیے، جن کے خلاف پورے ملک میں طلبہ نے احتجاج کیا، پی ایم سی نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور پورے ملک میں ایک ہی دن دوبارہ امتحان کرائے۔ اگرچہ فی الحال ایم ڈی کیٹ کے امتحانی نتائج کا مسئلہ حل ہوگیا ہے، لیکن اعلی تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے میرٹ پر جو زد پڑی ہے، اس کا تدارک ضروری ہے،امتحانی نظام پر توجہ مرکوز نہ ہونے سے ملک کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کی ساکھ متاثر ہو گئی ہے، اس مسئلے کا بھی یہی حل ہے کہ ایف ایس سی کے نصاب اور امتحان پر توجہ دی جائے اور اسی کو میرٹ کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ امتحانی نظام اور مارکنگ کی رازداری کو مستحکم کیا جائے اور ایف ایس سی کے نتائج پر ہی پیشہ ورانہ اداروں میں داخلے کا میرٹ بنایا جائے، اس سے ہمارے پروفیشنلز کی ساکھ اور دنیا میں ہماری تعلیم اور ڈگریوں کی کریڈیبلٹی دونوں بحال ہوں گی، نت نئے تجربات سے طلبا پر ذہنی دبا ؤجبکہ والدین پر مالی دباؤ تو بڑھتا ہے، مگر علم یا تعلیم کا معیار مزید گرتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہی ماضی کا امتحانی نظام فعال اور بااختیار کیا جائے، اسی سے اچھے ڈاکٹر، انجینئر دوبارہ پیدا ہوں گے۔