ہم کالج گراؤنڈ کے باہر ایک بنچ پر بیٹھے جنازے کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔جس جگہ ہم بیٹھے تھے اُس کے سامنے فزکس اورکیمسٹری کے لیکچر روم تھے۔ اور جس بندے کے جنازے کا ہم انتظا رکر رہے تھے وہ ان ہی کمروں کے بنچوں پر بیٹھ کر ایف ایس سی کے لیکچر سنتا رہا تھا۔ میرے خیالوں میں وہ سار امنظر گھومتا رہا کہ وہ کیسے یہاں بیٹھتا ہو گا او رکیسے لیکچرسنتا ہو گا۔ اس کالج سے اس نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا تو اس کے بعد تعلیم کی تکمیل کا بوجھ اٹھانے کی قابل نہیں تھا اس لئے اُس نے سروس جائن کر لی۔ میرے برادر بزرگ کا کلاس فیلو تھا اور دونوں میں ایک بہترین تعلق قائم ہو چکا تھا۔ بھائی جان نے ایف ایس سی کے بعد سروے آف پاکستان میں نوکری اختیار کر لی تو اس نے بھی بھائی جان کا پیچھا کرتے ہوئے سروے آف پاکستان میں نوکری اختیا ر کر لی۔ کچھ عرصہ وہ دونوں مری راولپنڈی اور کوئٹہ کے سٹیشنوں پر اکٹھے سروے آف پاکستان میں نوکری کرتے رہے پھر بھائی جان کو سعودی عرب میں کسی کمپنی میں سروے کاکا م مل گیا تو وہ سعودی عرب چلے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کو بھی سعودی عرب میں کام مل گیا اور یہ بھی سعودی عرب چلے گئے۔ میں چونکہ ایم ایس سی کرنے کے بعد لیکچرر کی پوسٹ پر ایبٹ آباد کالج میں فائز ہو گیا اسلئے بھتیجیوں کی پڑھائی کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی گئی۔ اب سردار یعقوب صاحب کے بچے بھی ایبٹ آباد کے سکولوں میں داخل ہو گئے تھے اس لئے اُن کے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری بھی میرے ہی ذمہ لگ گئی۔ یعقوب صاحب نے کھولہ کیہال میں گھر بنا لیا اور بچے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ تو مجھ کوبھی اسی محلے میں اُن کے مکان کے بالکل قریب ہی گھر بنوا کر دے دیا گیا تاکہ میں دونوں خاندانوں کے بچوں کی پڑھائی میں دیکھ بھال کروں۔ یعقوب صاحب کیونکہ بھائی جان کے لنگوٹیے تھے اس لئے میں بھی اُن کو بھائی جان ہی کہتا تھا۔ اور اُن کے بچے مجھے چچا ہی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ان کے سعودی عرب کی نوکری کے دوران مجھ سے جو کچھ ہو سکا بچوں کی پڑھائی وغیرہ کی دیکھ بھال کی۔کچھ عرصہ کے بعد یہ دونوں سعودی عرب سے نوکریاں ختم کر کے واپس پاکستان لوٹ کر آ گئے۔بھائی جان نے تو کچھ پرائیویٹ کمپنیوں میں نوکری کی مگر یعقوب صاحب سیاست کی طرف نکل پڑے۔انہوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ان کی پارٹی اقتدار میں آگئی تو اُن کو اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر بنا دیا گیا۔یوں سیاست میں اُن کے پاؤں جم گئے۔ کچھ عرصے تک تو وہ سیاست میں سر گرم رہے مگر بھر انہوں نے گھریلو زندگی گزارنے کا تہیہ کر لیا۔ لیکن سیاست کب جان چھوڑتی ہے سو وہ کسی نہ کسی حیثیت سے خدمت خلق کے کام میں لگے ہی رہے۔ تاہم انہوں نے بھرپور طریقے سے سیاست کی اور سیاست میں اہم مقام بھی بنایا۔ بلکہ یوں کہئے کہ جس بھی ڈیپارٹمنٹ میں رہے انہوں نے دل لگاکر کام کیا وراپنی حیثیت کی چھاپ اُس جگہ پر مستقل طور پر چھوڑی۔ اُ ن کی ملنساری کا یہ حال تھا کہ گھر پر ہوں یا کسی بھی پوسٹ پر اُن کا دستر خوان ہمیشہ وسیع رہا اور اُن کے گاؤں والے ہوں یا اُن کے یار دوست ہوں اُن کے دستر خوان کے خوشہ چین ہی رہے اور میں نے کبھی بھی اس شخص کے ماتھے پر بل نہیں دیکھے کہ کسی نے اُن کے ساتھ اچھائی کی یا اُن کی اچھائی کے بدلے میں دھوکہ دہی کی مگر انہوں نے کبھی بھی برا نہیں منایا۔ ان کی یہ خوبی سب کو ہی اپنا بنانے میں بہت کام آئی۔ کچھ عرصہ پہلے اُن کا بڑا بیٹا اللہ کو پیاراا ہوگیا۔ بیٹے کا غم تو ایسا ہے کہ بندے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے سو اس شخص کو بھی بیٹے کے غم نے ادھ موا کر دیا۔ گو شکایت کرنے کی عاد ت تو ان کو تھی ہی نہیں مگر جو چوٹ کھا لی اُس کا درد تو رہتاہے گو بندہ ظاہر نہ کرے۔ اُن کے صبر کی عادت نے اس غم کو منہ پر تو آنے نہ دیا مگر اندر ہی اندر سے ان کو کھاتا گیا۔ انہوں نے اس مشکل گھڑی میں صبر و تحمل اور برداشت کا جو مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر لوگ حیرت میں مبتلا ہیں تاہم انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے پھر یوں ہوا کہ انہوں نے ملنا ملانا ہی چھوڑ دیا اور گھر کے ہی ہو کر رہ گئے اور گھر میں اکیلے پن نے اُن کو مزید زخمی کیا اور ایک دن خالق حقیقی سے جا ملے اور میں اُن کے جنازے کی آمد کے انتظار میں اُن کے فزکس اور کیمسٹری کے لیکچر روم کے سامنے بیٹھاوہ سارا نقشہ اپنے ذہن میں دوڑا رہا تھا کہ جو انہوں نے اس کالج میں اور سروے آف پاکستان میں، سعودی عرب میں اور پھر بہترین سیاسی زندگی میں گزارا۔