جمہوریت زمانہ حال میں معروف اور مقبول ترین طرز حکمرانی ہے۔ اس کے حامی تو اس کی تعریف "عوام کی حکومت، عوام کیلئے، عوام کے ذریعے" کرتے ہیں، مگر علامہ اقبال کا فرمان ہے،
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا میں دو طرح کی جمہوریت رائج ہے، ایک امریکی ماڈل جو صدارتی کہلاتا ہے جبکہ دوسرا برطانوی ماڈل جو پارلیمانی کہلاتا ہے۔ ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوری نافذ ہے مگر نہ جانے اس سے ہم خاطر خواہ فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکے۔ اگر اس مسئلے کی تہہ میں پہنچا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آسکتی ہے کہ انتخابی عمل اور تسلسل کے باوجود حقیقی معنوں میں جمہوری رویوں کا ہر دور میں فقدان رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جمہوریت میں بھی ایک طرح سے اختیارات کے ارتکاز کا رویہ جاری رہا۔یعنی جمہوریت محض سیاسی جماعتوں کی موجودگی اور انتخابات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے جہاں دوسروں کی رائے کا احترام اولین اصول ہے۔ اگر یہ اصول سیاسی جماعتوں میں لاگو نہ ہو یا پھر طرز حکمرانی میں نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت کمزور ہے۔ ہمارے ہاں بہت کم ہی سیاسی جماعتیں ہیں کہ جن میں پابندی کے ساتھ اندرونی انتخابات کا عمل جاری رہتا ہے، زیادہ تر میں نامزدگیوں سے کام چلتا ہے اور جہاں انتخابی عمل سرانجام پاتا ہے وہاں پر بھی بہت سے عہدے بلا مقابلہ ہاتھ آجاتے ہیں۔ یعنی قائدین کا زیادہ تر کوئی مقابلے پر نہیں آتا۔ یہ کسی بھی ایک جماعت اور دور کی بات نہیں ہورہی۔بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جس کو حقیقی جمہوری رویے سے ہی توڑا جاسکتا ہے۔ اور پھر ہم کہہ سکیں گے کہ جمہوریت کے فوائد کیا ہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ حالات میں سیاسی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا پھر حزب اختلاف سے کہ وہ ملکی انتخابی عمل ہو یا پھرسیاسی جماعتوں کے اندر انتخابی عمل اس میں اصلاحات کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیں تو بات بنے گی اس طرح انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد بنانے کیلئے بھی مل کر تمام سیاستدانوں کو کوشش کرنی ہوگی کہ اس پر ملک اور جمہوریت کے استحکام کا انحصار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب جمہوری ادارے، پارلیمنٹ فعال کردا رکے حامل ہوں گے تو اس سے سیاسی استحکام جنم لیتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ملکی معیشت بھی پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ دیر آئد درست آئد کے مصداق اگر اس وقت حکومت انتخابی عمل میں اصلاحات کی کوشش کررہی ہے تو حزب اختلاف کو اس میں ساتھ دینا چاہئے۔ اس میں سب کی بھلائی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں اگر مہنگائی اور دیگر مسائل کاسامنا عوام کو ہے تو اس کی بڑی وجہ ایک طرف اگر بین الاقوامی سطح پر کساد بازاری اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام اور اپوزیشن وحکومت کے درمیان فاصلے ہیں۔ جس نے حکومت کی توجہ دوسری طرف مبذول کرائی ہے اگر چہ اس کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوششیں ہورہی ہیں تاہم جس تیزی اور انہماک کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے اس کیلئے باہمی افہام و تفہیم کا موجود ہونا ضروری ہے۔