اسلام آباد کا بلدیاتی نظام بھی اپنی جگہ ایک گورکھ دھندا ہی ہے‘ جب تک وفاقی دارالحکومت کا علاقہ ضلع و تحصیل راولپنڈی کا حصہ رہا، 1963میں ہونے والے ایوب خان دور کے بی ڈی نظام کے الیکشن ہی ہوئے تھے، جو بیسک ڈیموکریسی یا بنیادی جمہوریت کے نام پر کرائے گئے تھے اور 1964 کے صدارتی انتخابات کیلئے یہی الیکٹورل کالج تھا یعنی یہی بی ڈی ممبر صدارتی انتخاب کے ووٹر تھے۔یہی بی ڈی ممبران ہی بھٹو کے دور میں چلتے رہے حالانکہ ان کے پس کوئی اختیار نہیں تھا اس کے بعد 1979 میں جنرل ضیا الحق نے ایک مارشل لا ایکٹ کے تحت اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں بارہ یونین کونسل کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔اس صدارتی بھٹو دور میں بلدیا تی اداروں کے اختیارات پیپلز پارٹی کی مقامی تنظیموں کو د ئیے گئے تھے۔ 1979میں جنرل ضیالحق نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسلام آباد کے دیہاتی علاقوں میں 12 یونین کونسلز قائم کیں، اب آرڈیننس سے 12 یونین کونسل قائم تو ہو گئیں مگر صدارتی حکم میں ان کے توڑنے یا ختم ہونے کا کوئی حوالہ یا طریقہ درج نہیں تھا۔ اسلام آباد شہر یا ضلع کی حد تک کوئی ادارہ نہیں بنایا گیا۔شہری نظام سی ڈی اے جبکہ ضلع کونسل کا متبادل ضلعی رابطہ کمیٹی بنائی گئی۔جس کا چیئرمین بارہ یونین کونسلز کے چیئرمینوں میں سے ایک منتخب ہوتا۔یہی رابطہ کمیٹی دیہی ترقیاتی منصوبے بھی منظور کر تی۔یہ نظام 1993 تک چلتا رہا، 1993 میں صوبوں میں بلدیاتی ادارے توڑ دیئے گئے جبکہ اسلام آباد کی 12 یونین کونسل کو توڑنے کیلئے حکومت نے اس وقت کے قائم مقام صدر وسیم سجاد کو آرڈیننس جاری کرنے کی سمری بھیجی۔ تاہم انہوں نے یونین کونسل توڑے بغیر سمری واپس کردی۔اس طرح پنجاب سمیت صوبوں میں بلدیاتی ادارے ٹوٹ گئے مگر اسلام آباد کی 12 یونین کونسلیں بچ گئیں بچ۔ کیونکہ ان کو ختم کرنے کا کوئی قانونی طریقہ موجود نہیں تھا۔اس کے بعد 2002 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے این آر بی یعنی قومی تعمیر نو بیورو بنایا۔جس نے ایک نئے بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی۔اس انقلابی منصوبے کے تحت ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی حد تک حکومتیں قائم کی گئیں جن کا سربراہ ناظم ہوتا اور ضلعی اور پولیس انتظامیہ کو ناظم کے ماتحت کر دیا گیا۔اس طرح ضلع میں ڈی سی او ایس پی کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ان کی جگہ ڈی سی او ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر اور ڈی پی او یعنی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے عہدے قائم ہو گئے۔اس عرصہ میں اسلام آباد واحد ضلع تھا جہاں نظامت کا نظام نہیں تھا اور صرف اسلام آبادکا ڈپٹی کمشنر موجود رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں آئیں جنہوں نے بلدیاتی انتخابات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔جنرل پرویز مشرف نے ناظم کا عہدہ اتنا بااختیار بنا دیا تھا کہ بعد میں ایم این اے اور ایم پی اے کے ضلعی بیورو کریسی بھی اس کے حق میں نہ تھی۔ اس لیے بلدیاتی انتخاب نہ ہوسکے2014میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے سپریم کورٹ کے بار بار اصرار اور احکامات سے تنگ آکر بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ اس کیلئے پنجاب میں تو 1990 کے نظام کو برقرار رکھا گیا جبکہ اسلام آباد کیلئے پہلی بار قانون بنایا گیا۔ یہ پچاس یونین کونسل پر مشتمل میٹروپولیٹن کارپوریشن بنانے کا منصوبہ تھا۔ دارالحکومت کی شہری اور دیہی تقسیم ختم کر دی گئی۔ نئی حلقہ بندیاں ہوئیں یونین کونسل میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کا پینل بنایا گیا جو براہ راست ووٹ کے ذریعے ایک ہی ووٹ سے دونوں منتخب ہونے تھے‘ اس کے علاوہ 5 جنرل کونسلرز، ایک نوجوان، ایک خاتون، ایک غیر مسلم اور ایک کسان یا لیبر کونسلر رکھا گیا۔ ان چیئرمینوں نے میٹرو پولیٹن کا میئر منتخب کرنا تھا۔ بہرحال اسلام آباد میں بلدیاتی نظام نہ چل سکا اور 2020 میں مدت ختم ہونے پر بلدیاتی جھمیلہ ہی ختم ہو گیا۔پھر ایک نئے بااختیار بلدیاتی نظام کی تیاری شروع ہوگئی۔ اس کا اعلان اب ہوا۔ اب اسلام آباد میٹرو پولیٹن کے میئر کا الیکشن براہ راست ووٹ سے ہوگا۔ یونین کونسل کی تعداد پچاس سے بڑھاکر 100 کر دی گئی دیگر خصوصی شعبوں کی نشستیں بھی برقرار رکھی گئی ہیں۔ ہر یونین کونسل بیس ہزار آبادی پر مشتمل ہوگی۔ اس کیلئے شہر میں تو سیکٹر تقسیم ہیں البتہ دیہی علاقوں میں نئی حلقہ بندی کرنی پڑے گی، جس کے خلاف اپیلوں کا لاامتنائی سلسلہ چلے گا۔ اس لیے مقررہ تاریخ اپریل 2022 تک الیکشن کا انعقاد اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔