کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں لمحہ لمحہ ہیجان خیزی ہے، ایک ایک بال سے تماشائی محظوظ ہوتے ہیں، بکر گیند لیکر دوڑنا شروع کرتا ہے اور بیٹسمین بلے کو حرکت دینی شروع کرتا ہے تو تماشائی کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگتی ہے، اب تو اس کھیل میں گلیمر اور دولت بھی آگئی ہے، اس کے باوجود ساری دنیا اس کو کھیل ہی تسلیم نہیں کرتی، بنیادی طور پر یہ انگریزوں کا کھیل تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ انگریز نوآبادیاتی کالونیوں کے عوام میں رائج ہوا، ہندوستان میں انگریزوں کے جانے سے پہلے کرکٹ یہاں آ چکی تھی اور آج بھارت پاکستان میں کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے، کرکٹ کھلاڑی فلمی ہیروز سے زیادہ مشہور اور امیر ہیں، اس کی وجہ عوام کا جوش و خروش ہے جو کرکٹ کو ہر تفریح پر ترجیح دیتے ہیں۔ 40 سال پہلے کرکٹ اتنا مقبول نہیں تھا، اس کو سگریٹ ساز کمپنیوں نے سپانسر کر کے ٹی وی پر براہ راست دکھانے کا سلسلہ شروع کیا، میچ دیکھنے فلمی ہیروئن بھی سٹیڈیم جانے لگیں، کچھ گلیمر اور فلمی ہیروئینز کے کھلاڑیوں کے عشق معاشقے مشہور ہوئے اور لوگ تفریح کیلئے کرکٹ سٹیڈیم کی طرف راغب ہونے لگے۔ شروع میں کرکٹ میچ پانچ دن کا ہوتا تھا جو ٹیسٹ میچ کہلاتا تھا، پھر ایک دن کا ون ڈے میچ شروع ہوا اور اب چند گھنٹوں کا میچ ہوتا ہے، مگر دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے، ابھی کرکٹ کے چند گھنٹوں یا 20 اوورز پر مشتمل T20 پیٹرن کے میچوں کا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ جاری ہے، اس کا میزبان انڈیا ہے مگر سیکورٹی اور بھارت میں غیر ہندو شہریوں کے خلاف انتہا پسندانہ تشدد کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ کے میچ یو اے ای میں ہوئے ہیں، گزشتہ روز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا، پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچ چکا ہے، پاکستانی ٹیم کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ کوئی میچ ہارے بغیر سیمی فائنل تک پہنچی مگر سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ہار گئی، پاکستانیوں نے ابتدائی میچوں میں بھارت کے ساتھ میچ میں جیت کے بعد یہ توقع بلکہ خوش فہمی پال رکھی تھی کہ ورلڈ کپ پاکستان ہی جیتے گا، کوئی یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھاکہ ابھی فائنل تک کئی میچ کھیلنے اور جیتنے ہیں لیکن تمام تر توقعات اور خوش فہمیوں کے باوجود عوام نے سیمی فائنل ہارنے پر بھی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے جیسا وسیع مفہوم نعرہ بھی ایجاد کیا۔ کرکٹ میں جو سپورٹس مین سپرٹ قوم نے دکھائی ہے وہی جذبہ قومی سطح پر سیاست میں بھی دکھانے کی ضرورت سیاست میں ہے، ہم اپنے امیدوار یا سیاسی لیڈر کو صرف جیتنا ہی دیکھنا چاہتے ہیں، ہار تو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں، اگر سیاست کو بھی ایک کھیل سمجھ کر ہار اور جیت دونوں کیلئے دل میں گنجائش رکھی جائے تو ہمارے کئی سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں، قومی سطح کی سیاسی لیڈر شپ نے بھی قومی کرکٹ ٹیم کو شاباش دی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کرکٹ ٹیم نے ہار کر بھی قوم کو متحد کر دیا ہے، اگر قومی سیاست دان ایسی سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ سیاست میں کریں تو پاکستان کی عوام کی عید ہو جائے۔۔قوم انتظار ہی کرسکتی ہے کہ سیاسی قیادت کب ایک دوسرے کو برداشت کرنا شروع کریں گے اور عوامی مسائل پر توجہ مبذول کریں۔