ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان سیمی فائنل کے مرحلے میں مقابلے سے باہر ہو گیا۔ دکھ تو ہوتا ہی ہے مگر کیا کیا جائے کہ جو بھی ٹیمیں کھیل میں حصہ لیتی ہیں کوئی بھی ہارنے کیلئے نہیں کھیلتی۔ لیکن کھیل کی بڑی بات یہ ہے کہ صرف ایک ٹیم ہی جیت کا سہر اسر پہ سجاتی ہے۔ اور یہ ٹیم ٹورنامنٹ کی اعلیٰ ترین ٹیم کہلاتی ہے۔قومی ٹیم نے جس طرح کا کھیل پیش کیا اس نے بلا شبہ ٹورنامنٹ کی اعلیٰ ترین ٹیم کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ اور سیمی فائنل تک ناقابل شکست رہی۔ ایسا بھی نہیں کہ جو دوسری ٹیمیں کھیل میں حصہ لے رہی ہوتی ہیں وہ کوئی برا کھلتی ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ کوئی دن کسی خاص ٹیم کیلئے مختص ہوتا ہے اور وہ ٹیم اُس دن جیت جاتی ہے۔ کسی زمانے میں ہاکی کے جو مقابلے ہوئے اس میں پاکستان ٹیم بنگلہ دیش کی نوزائیدہ ٹیم سے پول میچ ہار گئی تھی اور بنگلہ دیش ٹیم کے کپتان نے کہا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کپ جیت لیا ہے۔حالانکہ وہ کپ جیتا تو پاکستان نے ہی تھا مگر پول میچ میں وہ بنگلہ دیش کی نو زائدہ ٹیم سے ہار گئی تھی۔ کہنے کا مطلب کہ جس طرح کہاجاتا ہے تو وہ دن در اصل بنگلہ دیش کی ٹیم کا دن تھا۔ ایسا تو نہیں کہ پاکستان ٹیم اتنی کمزور تھی کہ بنگلہ دیش جیسی نو زائدہ ٹیم سے ہار جاتی مگر بات وہی دن کی ہے۔ یوں بھی جو بھی دو ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو جیتنا تو ایک ہی نے ہوتا ہے مگر ہم نے چونکہ پاکستان ٹیم کو (چاہے ہاکی ہو یا کرکٹ) ہارتے ہوئے کم کم ہی دیکھا ہے اس لئے جب بھی ٹیم پاکستان ہارتی ہے تو اول تو ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ ہماری ٹیم ہاری ہے مگر جب یقین آ جا تا ہے تو بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ جب دو ٹیمیں کھیل کے میدان میں اتریں گی تو جیت تو ایک ہی کی ہو گی۔ مگر یہ ماننے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے کہ ہماری ٹیم ہار بھی سکتی ہے۔دراصل ہماری ٹیموں نے خصوصاً ہاکی نے دنیا میں ایساڈنکا بجا رکھا تھا کہ ایک سال تو ایسا بھی تھا کہ دنیا کے ہاکی کے سارے ٹائٹل پاکستان کے پاس تھے۔ اس لئے ہمیں بہت کم یقین آتا ہے کہ پاکستان ٹیم ہار گئی ہے۔ ایساہے کہ پاکستان میں سارا سال مختلف قسم کے ٹورنامنٹ ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے پورے ملک کی ٹیمیں اُس میں حصہ لیا کرتی تھیں اور ان سے بہت اچھے لڑکوں کو چنا جاتا تھاور ان لڑکوں سے پاکستان کی ٹیم تشکیل پاتی تھی۔ ان میں زیادہ تعداد پی آئی اے اور بحریہ سے ہوتے تھے۔ اس لئے کہ ہوم سیریز میں یہی دوٹیمیں فائنل میں پہنچا کرتی تھیں اور ان کے بہترین کھلاڑیوں کی اور ان کے علاوہ دوسری ملکی ٹیموں کی اعلیٰ ترین کھلاڑیوں کو ملکی ٹیم میں چنا جاتا تھا اور اس ٹیم کو شکست دینا تقریباً ناممکن ہوا کرتا تھا۔ پھرنہ جانے کیا ہوا کہ قومی ہاکی ٹیم کا چناؤ ا یسا ہونے لگا کہ میرٹ کو اس میں نظر آنداز کیا جانے لگا۔س طرح جتنے بھی ٹائٹل ہماری ہاکی ٹیم نے جیتے تھے وہ سارے ہا ر دیئے۔ اس وقت ائر مارشل نور خان ہاکی ٹیم کے سرپرست تھے اور ان کی ٹیم میں ایک کھلاڑی بھی میرٹ کے علاوہ نہیں لیا جاتا تھا اسی لئے ہاکی کی دنیا کے سارے کپ ہماری ہی ا لماریوں میں سجے تھے۔ اب اگر بات کی جائے کرکٹ ٹیم کی اور ورلڈ کپ میں اس کی کارکردگی کی توبلا شبہ قومی ٹیم نے بے مثال کھیل پیش کیا اور کپ جو بھی جیتا دل قومی ٹیم نے جیتے، اور مخالفین بھی اس بات حقیقت کے قائل ہیں۔