ہندوستان کو اٹھارہویں صدی سے ہی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، اس متحدہ ہندوستان کی نئی تقسیم کے بعد اب ہم برصغیر کہتے ہیں، جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان بھی شامل تھے، یہ زرعی پیداوار اور مصالحہ جات کی پیداوار اور تیاری کے لیے مشہور تھے، اسلئے انگریز تجارت کی آڑ میں یہاں آئے اور پھر بیٹھ گئے، ان کو نکالنے کیلئے یہاں کے رہنے والوں نے بڑی قربانیاں دیں، 1947 میں انگریز تو واپس چلا گیا مگر دنیا کی کچھ نئی طاقتوں کی دلچسپی بڑھنے لگی، نئی تحقیقات کے مطابق پاکستان اور بھارت کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ ان کے محل وقوع کی اہمیت عالمی طاقتوں کیلئے،زیادہ دلچسپی کا باعث ہے۔ اب دنیا کی دلچسپی افغانستان میں مدفون زیرزمین خزانے ہیں، جن میں سونا، تانبا اور مہنگی ترین دھات یورینیم بھی وافر مقدار میں موجود ہے، مگر 40 سال سے افغانستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اب بھی امن و استحکام نہیں، روس اور امریکہ تو یہاں اربوں ڈالرز ضائع کر کے ناکام جنگیں بھی لڑ چکے ہیں، اگرچہ وہ رسوا ہو کر نکلنے پر مجبور ہوئے، اس کے باوجود یہاں کی کشش ان کو سازشوں پر اُکساتی ہے۔ چین نے عقلمندی کا راستہ اختیار کیا، اس نے اربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے کے بجائے ہمسایہ ملک پاکستان کی بندرگاہوں سے وسیع روڈز کے ذریعے افغانستان بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداریاں بنائیں اور اب سمندر سے محروم ہر ملک نہ صرف گرم پانی گہرے پانی والی بندرگاہ گوادر تک سڑکوں سے منسلک ہو رہے ہیں، بلکہ دنیا سے تجارت بھی کر رہے ہیں، چین کی خطے میں بڑھتی اثر انگیزی اور نیک نامی سے امریکہ اور روس کی نیند حرام ہیں، دونوں اس کے توڑ کیلئے وہی طریقہ اختیار کر رہے ہیں جو ماضی میں کرکے شکست کھا چکے ہیں۔ اس کیفیت سے بھارت فائدہ اٹھانے کیلئے دونوں سابق عالمی طاقتوں اور افغانستان سے شکست خوردہ ممالک امریکہ اور روس سے مراسم بڑھا کر خود کو چین کا توڑ ثابت کرنا چاہتا ہے‘ بھارت چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے بعد اب اس پوزیشن میں نہیں کہ چین کے خلاف امریکہ کو کوئی سہولت دے۔اب لے دے کے صرف افغانستان ایسی جگہ بچتی ہے، جہاں امریکہ رہنے کا سوچے، مگر پہلے کی خواری امریکہ کو افغانستان میں آنے سے روکتی ہے، یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن سے ہی پاکستان، بلکہ خطے کا امن ہے، اس لئے جب ٹرائیکا پلس کانفرنس بلائی گئی تو اس میں امریکہ روس چین اور پاکستان کے ساتھ پاکستان کی کوشش سے افغانستان کا اعلی سطحی وفد بھی شریک ہوا‘اس وقت تمام دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں اور طالبان سے دنیا کو بہت امیدیں وابستہ ہیں، افغان طالبان عالمی برادری کے بہت سے تحفظات دور کرنے پر تیار ہیں لیکن جواب میں افغانستان کے منجمد اثاثے واگزار کرنے اورامداد جاری کرنے کے متمنی ہیں، پاکستان پوری کوشش میں ہے کہ یہ کانفرنس نتیجہ خیز اور کامیاب ہو۔