امریکی سینیٹرز نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کی تجویز مسترد کردی

 واشنگٹن: امریکی سینیٹرز نے اعلان کیا ہے کہ سینیٹرز کے گروپس نے جو بائیڈن حکومت کے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے کیونکہ ریاض یمن کی جنگ میں متنازعہ کردار ادا کر رہا ہے۔سعودی عرب امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خرید کنندہ ہے۔

سینیٹرز نے امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو 65 کروڑ ڈالر کے اسلحے کی تجویز مستردکردی، یہ تجویز ریپبلکن جماعت کے رینڈ پال اور مائیک لی کی جانب سے پیش کی گئی تھی ان کے ساتھ برنی سینڈر بھی شامل تھے، جو ڈیموکریکٹ پارٹی کے رہنما ہیں۔

دریں اثنا امریکا کے دیگر قانون ساز تصورکرتے ہیں کہ سعودی عرب مشرق وسطی میں امریکا کا اہم شراکت دار ہے، انہوں نے سعودی عرب کے یمن میں جاری جنگ میں ملوث ہونے پر تنقید کی اور اس جنگ کو دنیا کا تباہ کن انسانی بحران تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بغیر اس تصدیق کے کہ امریکا کے دفاعی آلات کسی شہری کو قتل کرنے میں استعمال نہیں ہوں گے سعودی عرب سے کسی بھی قسم کی دفاعی فروخت کی منظوری سے انکار کردیا۔

سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی منصوبہ بندی اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے احکامات سے بالکل مخالف ہے، جنہوں نے ریاض کے اتحاد اور حوثی باغیوں کی تحریک سے یمن میں جنگی جرائم بڑھنے کی دستاویز پیش کی ہے۔

سعودی عرب کے لیے منظور کیے گئے پیکج میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کنٹینر کے ساتھ 280 اے آئی ایم -120-سی 7 / سی ایٹ ایڈوانس میڈیم رینج کے فضائی میزائل (اے ایم آر اے اے ایم)، 596 ایل اے یو-128- میزائل ریل لانچرز (ایم آر ایل)شامل کرے گا۔

اس پیکج میں مدد کے لیے آلات، پرزے، امریکی حکومت کے کنٹریکٹر انجینئر اور تکنیکی حمایت شامل ہوگی۔رینڈ پال نے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ مشرق وسطی میں فروخت اسلحے کی دوڑ میں اضافہ اور فوجی ٹیکنالوجیز کو خطرے میں ڈال کرسکتا ہے۔

برنی سینڈر نے کہا کہ جیسا کہ سعودی عرب مسلسل یمن کی تباہ کن جنگ میں ملوث ہے اور اپنے شہریوں پر دبا ؤڈال رہا ہے، تو ہمیں انہیں مزید اسلحہ فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ یہ میزائل ریتھیون ٹیکنالوجی سے بنائے جاتے ہیں۔جوبائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ انہوں نے خلیجی اتحادیوں کو دفاعی ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔جب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسلحہ فروخت کرنے کی تجویز منظور کی تو ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ فروخت حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتی ہے کہ یمن میں تصادم کو ختم کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فضائی میزائل سعودی عرب کو اس لییفروخت کیے جارہے ہیں تاکہ سلطنت ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فضائی حملوں سے اپنا دفاع کر سکے۔یہ ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی منظوری دستخط شدہ معاہدے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔