پاکستان کی پارلیمنٹ، جس کا آئین میں نام مجلس شوری ہے، دو ایوانوں پر مشتمل ہے، ایوان زیریں قومی اسمبلی ہے جو براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب نمائندوں کا ایوان ہے، دوسرا ایوان بالا سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ووٹوں سے بالواسطہ منتخب سینیٹرز پر مشتمل ایوان ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس خاص مواقع یا ضرورت کے تحت ہی طلب کیا جاتا ہے۔کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کی عزت افزائی کیلئے اس کو پارلیمنٹ سے خطاب کی دعوت دی جائے تو مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے، یا حکومت کسی ضروری قانون سازی کیلئے اگر قومی اسمبلی میں گنتی پوری کرنے میں ناکام رہے تو پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اپنی مجموعی اکثریت سے فائدہ اٹھاتی ہے، گزشتہ روز حکومت کا طلب کردہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں حکومت نے 33 قوانین منظور کروائے، ان میں انتخابی اصلاحات، غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق سے لے کر الیکٹرانک مشینوں کے استعمال تک قوانین مشترکہ اجلاس میں منظور کر وا لئے گئے۔ بات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شروع ہوئی تھی، کل کے اجلاس سے پہلے مشترکہ اجلاس 2017 میں اس وقت کی حکومت نے ایسے وقت طلب کیا تھا جب وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے کر سیاست کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی، مگر حکمران جماعت ہر حال میں نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے پر بضد تھی اور اس کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر یہ قانون منظور کروا لیا گیا تھا جس کے تحت نااہل شخص بھی سیاسی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے۔حالیہ مشترکہ اجلاس میں اگر دیکھا جائے تو حکومت وقت نے اپنے مفادات کی بجائے اس میں ملکی مفادات اور نظام کو تقویت دینے والی قانون سازی کی جس کے دور روس اثرات مرتب ہوں گے، ان میں سے ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا انتخابات میں استعمال ہے۔ اگر اس مشین کے استعمال سے انتخابی عمل کو زیادہ شفاف اور قابل اعتماد بنایا جا سکتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی کہ آج تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کو ہارنے والی جماعت تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور جو جیت جاتی ہے وہ اس کی شفافیت پر اصرار کرتی ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی انتظام کر لیا جائے کہ جیتنے اور ہارنے والی تمام جماعتیں اس کو تسلیم کریں تو ا س سے بڑھ کر جمہوریت کو فائدہ دینے والی چیز کونسی ہوگی۔ موجودہ حکومت نے جو قوانین منظور کروائے ان میں کوئی ایسا قانون نہیں جس سے وزیراعظم عمران خان کو ذاتی یا سیاسی فائدہ ہو، اپوزیشن کے الزامات اپنی جگہ مگر پارلیمنٹ میں اکثریت سے حکومت نے غلط فائدہ نہیں اٹھایا البتہ موجودہ اپوزیشن ماضی میں ایسا کرتی رہی ہے۔ اور اب حکومت پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے الزام لگا رہی ہے، حالانکہ ان مشینوں کے استعمال تک ابھی بہت اقدام کرنا باقی ہے، ابھی یہ بھی یقینی نہیں کہ آئندہ انتخابات میں یہ مشینیں استعمال ہوں گی۔ یعنی کئی مرحلے ابھی باقی ہیں اور اگر اس پر اتفاق ہو جائے کہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ہی ہوں تو پھر اس کی مخالفت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔وقت کا تقاضہ ہے کہ حزب اختلاف مخالفت برائے مخالفت کی بجائے حکومت کے ان اقدامات کی حمایت کرے جس کا فائدہ خود آنے والے وقتوں میں ان جماعتوں کو بھی ہوگا جو آج حزب اختلاف کا حصہ ہیں۔ کیونکہ جس قدر انتخابی عمل پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا تو اس کا فائدہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں طور پر ہوگا۔ اس حقیقت کا سیاسی جماعتوں کو احساس ہونا چاہئے۔دیکھا جائے تو قانون ساز اداروں یعنی ایوان بالا اور ایوان زیریں دونوں کا کام ہی یہی ہے کہ وہاں پر موثر قانون سازی ہو اور اس حوالے سے حزب اختلاف کا کردار بھی اہم ہے اور اس کا موقف بھی‘اس لئے حکومتی پارٹی کے لئے ضروری ہے کہ وہ حزب اختلاف کے موقف کو بھی سنے اور قانون سازی میں اس سے بھرپور استفادہ بھی کرے۔