جمہوریت اورحزب اختلاف

جس مجلس میں بھی کسی مسئلے پر بحث ہو رہی ہو تو اس میں دو دھڑے بن جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو مسئلے کے حق میں بولتے ہیں اور اس کے ہونے کیلئے دلیلیں دیتے ہیں اور دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے کہ جو اس مسلے کی مخالفت میں دلیلیں لاتاہے۔ جب بحث مکمل ہو جاتی ہے تو سر پنچ اس مسئلے پر جملہ حاضرین سے رائے لیتا ہے۔ اگر حق میں دلائل وزنی ہوں تو ایوان میں اکثریت اُس کی حمایت میں ووٹ کر دیتی ہے اور اگر مخالفت میں دلائل وزنی ہوں تو مخالفت میں رائے دے دی جاتی ہے اور سر پنچ مسئلے کے حق یا دوسری جانب فیصلہ سنا دیتاہے۔ یہ کسی بھی مسئلے کا جمہوری انداز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہے ان میں کسی بھی مسئلے کا فیصلہ اسی طرح سے ہوتا ہے۔یہ کسی بھی ملکی مفاد کے مسئلے کو ملک میں لاگوکرنے کا جمہوری انداز ہے۔جب پوری طرح سے ایوان کسی مسئلے پر حق اور مخالفت میں بحث کر لیتا ہے تو حتمی رئے کا فیصلہ ایوان میں کر لیا جاتا ہے او ریوں جو بھی مسئلہ ہو اس کا ملکی مفاد میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اور یہی صائب طریقہ ہوتا ہے۔ اور یوں جو بھی فیصلہ ہو جاتا ہے وہ ملکی مفاد کے حق میں ہوتا ہے۔بحث میں مسئلے کے سارے پہلوؤں کو اجاگر کر دیا جاتا ہے اور جب ایوان میں فیصلے کیلئے ووٹنگ ہوتی ہے تو ایوان اس مسئلے کو قبول یا مسترد کر دیتا ہے۔ او ر یوں جمہوری انداز میں کسی بھی مسئلے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور یہ فیصلہ ہمیشہ ملکی مفاد میں ہوتا ہے اس لئے کہ مسئلے کے دونوں پہلوؤں پر پوری طرح بحث ہو جاتی ہے اور ایوان کے اراکین کے سامنے کسی بھی معاملے اور درپیش مسئلے کے سارے روشن اور تاریک پہلو نمایاں ہو جاتے۔ کسی بھی مسئلے پر بحث یا مختلف آرئا کا سامنے آنا مسئلے کے حل کی طرف ایک طرح سے پیش رفت ہوتی ہے۔تاہم اس سارے عمل میں لگن اور خلوص نیت لازمی شرف ہے۔ اس کیلئے ضروری یہ کہ جتنے اراکین ایوان میں موجود ہوتے ہیں ان کو یہاں اپنے آنے کا مقصد معلوم ہو اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ محنت اور لگن کے اصولوں پر کاربند ہوں۔چونکہ ہمارے ہاں کثیر الجماعتی نظام ہے اسلئے ایوان میں مختلف جماعتوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں تاہم یہاں اس میں ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوتی ہے کہ مسئلے کو پارٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملکی مفاد کے رو سے دیکھا او رپر کھا جاتا ہے اور یوں جو فیصلہ ہوتا ہے اس میں تعصب یا پارٹی پالیٹکس کو نظر انداز کر کے صر ف اور صرف ملک کی صورت حال میں افادیت کو دیکھا جاتاہے۔کسی بھی کام کے شروع کرنے یا اسے انجام دینے میں مشورہ کرنا ایک بہت ہی اہم قدم ہے اور پارلیمنٹ جسے شوری بھی کہا جاتا ہے اس حوالے سے اہم ہے۔یہاں پر مشورے کا ماحول ہوتا ہے اور مشورے کے بعد جو امور طے ہوجائیں وہ ضرور اچھے نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ایوان میں مسئلے کو لایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ مسئلے کا کوئی بھی پہلو نظر انداز نہ ہو جائے اور ایوان جو فیصلہ کرے وہ ملک کی بہتری کیلئے ہو۔ کسی بھی ایوان کا انحصار ایک طرف اگر اراکین پر ہے تو دوسری طرف ان کو منتخب کرنے والے عوام پر بھی ہے اس لئے جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو ووٹ دیتے ہوئے یہ ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے ایک ووٹ سے جو ایوان بنتا ہے تو وہ بہت اہم فیصلے کرنے کی جگہ ہے اس لئے ایسے لوگوں کو وہاں بھیجنا چاہئے جو ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے اقداما ت کرنے سے اہل ہوں اور ان کو ایوان کی اہمیت کا بھی احساس ہو کیونکہ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب بھی کسی اہم مسئلے پر ایوان میں ووٹنگ ہوتی ہے تو حکومت یا حزب اختلاف دونوں طرف سے اراکین کی غیر حاضری سے وہ کام ہونے سے رہ جاتا ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ بعض اراکین قانون سازی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے جو کسی بھی حوالے سے اچھی بات نہیں اور ایوان کا مقصد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں پر ہر وقت موثر قانون سازی اور اہم اقدامات پر توجہ مرکوز رہے۔