بلدیاتی اداروں کو دنیا بھر میں جمہوریت کی بنیاد اور بنیادی جمہوریت کہا اور سمجھا جاتا ہے، یہ عوام کے اقتدار میں شمولیت کا براہ راست ذریعہ ہے، ہماری تاریخ میں بلدیاتی نظام کے تین ادوار گزرے، جو بنیادی جمہوریت کی ضرورت پوری کرتے تھے، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تینوں فوجی حکومتوں نے قائم کیے، صدر جنرل ایوب خان نے ساٹھ کی دہائی میں بی ڈی سسٹم متعارف کروایا، یہ عوامی مسائل کے حل اور سیاسی تربیت کیلئے موثر ثابت ہوئے، 1980 کی دہائی میں جنرل ضیا الحق نے ضلع کونسل اور میٹروپولیٹن نظام رائج کیا، اس کے ذریعے شہروں اور دیہات میں بہت تبدیلی آئی، سب سے اہم خدمت سیاسی تربیت کی، آج پارلیمنٹ میں 80 فیصد ارکان اسی بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاست میں پروان چڑھے، اس کے بعد 2000 نئی صدی کے شروع میں جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کا تصور دیا اور تاریخ کا بااختیار ترین بلدیاتی نظام قائم کیا، مگر اس کے بعد اس حوالے سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ 2015 میں مسلم لیگ نون نے سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرائے، مگر اختیار نہ دیئے، اب صوبوں نے تیاری شروع کر دی کہ اس سال کے آخر میں بلدیاتی حدبندی اور ابتدائی تیاری کر کے آئندہ سال کے شروع میں بلدیاتی انتخابات کرائیں، لیکن ابھی صوبوں اور الیکشن کمیشن کے درمیان کئی معاملات پر اختلاف ہے۔ بنیادی طور پر بلدیاتی اداروں میں چھوٹے وارڈ اور گلی محلے سے نمائندے چنے جاتے ہیں، جہاں سیاسی وابستگی سے زیادہ بلدیاتی امیدوار کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے۔ ابھی تک صرف کے پی حکومت نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا ہے اور اس کے حق میں عدالتی جنگ بھی لڑ رہی ہے، پنجاب نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا اعلان کیا ہے اور سندھ میں تو ابھی تک حلقہ بندی بھی نہیں ہوسکی، وہاں غیر یقینی صورت حال ہے۔ سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی سیاسی تربیت کا کوئی نظام نہیں، اس لئے اگر بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوتے رہیں اور ان کو مضبوط کیا جائے تو یہ سیاسی تربیت کا متبادل بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور عوامی مسائل کے حل کا ذریعہ بھی اور دیکھا جائے تو بلدیاتی الیکشن کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو تربیت یافتہ ورکرز مل جاتے ہیں اور کئی حوالوں سے بلدیاتی اداوروں کی مضبوطی میں جمہوریت کی مضبوطی ہے۔