کہتے ہیں کہ جب امریکہ کو آزادی ملی تو ایک شخص اپنے ہاتھ میں لاٹھی گھماتا ہوا جا رہا تھا کہ اُس کی لاٹھی ایک دوسرے شخص کی ناک پر جا پڑی۔ جو شخص لاٹھی کی زد میں آیاوہ شخص لاٹھی مارنے والے شخص کو عدالت میں لے گیا کہ اُس نے اُسے لاٹھی مار کر زخمی کیا ہے۔ جس کے خلاف مقدمہ تھا اُس نے کہا کہ امریکہ آزاد ہے۔ اور مجھے لاٹھی گھمانے کی آزادی ہے۔ جج نے فیصلے میں لکھا کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ہر کام میں آزاد ہیں۔ آزادی کی بھی حدود و قیود رکھ دی گئی ہیں۔ اس سے بات بڑھ جائے تو اُسے ہم مادر پدر آزاد کہتے ہیں اور یہ آزادی کسی بھی معاشرے میں نہیں دی جا سکتی۔ ہم آزاد ہیں مگر ہماری آزدی وہاں تک ہے کہ جہاں تک ہمیں قوانین وقواعد اجازت دیتے ہیں۔ اس سے آگے ہم نہیں نکل سکتے۔ اسی طرح ہر ملک کا ایک آئین ہے اور ہر ملک میں آئین جس حد تک آزادی دیتا ہے وہاں کی عوام اُسی حد تک آزادی سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہر گز نہیں ہے۔آزادی ہر ملک کو اُ س کے دستور سے اند رکھی گئی حدود کے اندر ر ہ کر ہوتی ہے اور آزادی جب کسی ملک کو ملتی ہے تو اس کے باسیوں پر ذمہ داریوں کا پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کہ انہوں نے اُن کمیوں کو پورا کرنا ہوتا ہے کہ جو ایک غاصب قوم نے اُن کے ملک کے ساتھ اپنی حکومت کے دوران کی ہیں۔ آزدی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں اور ملک کی ترقی کے بارے میں نہ سوچیں۔جب بھی کوئی غاصب کسی ملک پر قبضہ کرتا ہے توس سے پہلے وہ اُس ملک کے وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ جو کچھ اس ملک میں ہوتا ہے وہ اُسے اپنے ملک میں لے کر جاتا ہے اُس کے سارے وسائل کو اپنے ملک کے حوالے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب تو خیر کچھ بین الاقوامی قانون بھی بن گئے ہیں کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر قبضہ کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر کوئی ملک دوسرے ملک کو شکست دے دیتا ہے تو بھی وہ اُس پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا اور اُسے قبضہ بہر حال چھوڑنا ہے اسی لئے وہ جتنا کچھ مفتوحہ ملک کو لوٹنا چاہے لوٹتا ہے۔ اِس طرح اُس کے وسائل کو تبا ہ و برباد کر دیتا ہے اس لئے کہ اُسے مفتوحہ ملک پر تا دیر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی لئے اگر کوئی ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرتا ہے،جو آج کی دنیا میں ہو نہیں سکتا، تاہم وہ اُس ملک کے وسائل کو لوٹ کر لے جاتا ہے۔ اور جس ملک پر قبضہ ہوتا ہے اُس کے وسائل کوکم سے کم وقت میں اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے کہ موجودہ دور میں کسی بھی ملک کو غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ اسلئے اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے ہار جاتا ہے تواس کو غلام نہیں رکھا جا سکتا اسی لئے جیتنے وا لاملک اُس ملک کے وسائل کو جلد از جلد لوٹ لے جانا چاہتا ہے۔ تاہم جیسے اقوام متحدہ کے ادارے اس بات پر کوشاں ہیں کہ دنیا امن کے ساتھ رہے اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ جمانے کی کوشش نہ کرے مگر علاقائی معاملات کی جہ سے تنازعات تو اٹھتے ہی رہتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے بعض دفعہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ ہی جاتی ہے اور ایسا ہو تو لڑائی کا خطرہ تو بحر حال رہتا ہی ہے۔اسی لئے اقوام متحدہ کے ادارے ہر وقت اس بات پر کوشاں ہیں کہ تنازعہ کسی بھی دو ملکوں کے درمیان جنگ تک نہ جائے اور تنازعات کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ہو جائے تا کہ دنیا کا امن قائم رہے اور جب تک امن قائم رہے گا ملک ترقی کریں گے اور دنیا میں خوشحالی آئے گی اور اگر دنیا کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ بٹائیں تو پھر دنیا بھوک اور افلاس سے بچ سکتی ہے۔ اب تو دنیا ایک گاؤں کی مانند ہو چکی ہے کہ ذرائع آمد و رفت اتنے سہل اور تیز ہو گئے ہیں کہ کسی بھی ملک سے دوسرے ملک میں جانے کیلئے دنوں کی نہیں بلکہ گھنٹوں کی بات ہو گئی ہے۔ اسی لئے دنیا اب ایک گاؤں کی مانند ہو گئی ہے اور پورے گاؤں کا دکھ سکھ ایک ہو گیا ہے اسی لئے ملکوں کے درمیان تنازعات پر جنگوں کی نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے حل کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اور جب بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں تو جنگ کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے کہ دو عظیم جنگوں سے دنیا نے یہی سیکھا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔ اسی لئے اقوام متحدہ کے ادارے کی افادیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اور اس ادارے نے جنگ اور امن کا درس دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ ہم نے اپنی لاٹھی کو وہیں تک گھمانا ہے کہ جہاں تک دوسرے کی ناک کی حد ہے۔