ابھی کل کی بات ہے کہ یہی افغانستان تھا جو امن پسند دنیا کے بڑوں کے عطیہ کردہ ہتھیاروں سے باہمی جنگ و جدل کا شکار تھا، کچھ کے پاس سویت یونین کی توپیں اور کلاشنکوفیں تھیں تو کچھ کے پاس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہتھیار تھے، اس خانہ جنگی میں کتنے افغان مارے گئے، کتنے بے گھر اور بے وطن ہوئے، کسی کو اندازہ یا پریشانی نہیں تھی، اس وقت بھی صرف پاکستان تھا جس کے پاس بے گھر افغانوں کا حساب تھا کیونکہ ان کے لیے جائے پناہ پاکستان ہی بنا تھا، مگر دنیا کو اگر کوئی فکر کھائے جا رہی تھی تو بامیان کے پہاڑوں میں بنے قدیم بتوں کا تھا جن کو افغان طالبان توڑنے کا ارادہ رکھتے تھے، یہ بت نہ توڑنے پر طالبان کو کروڑوں ڈالر کی پیشکش کی گئی، حالانکہ زخمی اور بے گھر و بھوکے افغانوں کیلئے کوئی امداد دینے کو تیار نہیں تھا، ان کو روٹی کی جگہ رائفل اور آٹے کی جگہ گولیاں دی جاتی تھی کہ ایک دوسرے کو مارو، مگر بامیان کے بت کدوں کو بچانے کیلئے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے، تاہم انہوں نے بامیان کے پہاڑوں میں تراش شدہ بت توڑ دئیے، اس ظلم پر دنیا میں صف ماتم بچھ گئی، اس ظلم پر طالبان کی مذمت کی گئی۔ اسی خانہ جنگی میں کابل کے چڑیا گھر کا بوڑھا شیر بیمار ہو گیا، دھماکوں اور گولیوں کی گھن گرج سے اور شور سے یہ بوڑھا شیر بیمار ہو گیا، اس پر عالمی ضمیر پھر جاگ اُٹھا، خصوصی انتظامات کر کے شیر کو جنگ زدہ کابل سے نکالا گیا اور دنیا کو دکھایا گیا کہ امریکہ جانوروں کے حقوق کا بھی ضامن ہے۔ اب پھر وہی افغانستان ہے، طالبان البتہ بدل چکے ہیں، یہ ایک عالمی معاہدے اور امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی مرضی سے دوبارہ کابل پر قابض ہوئے ہیں، اس سے پہلے امریکہ کی مرضی سے ایک افغان نژاد امریکی شہری صدر بن کر بیٹھا تھا، جس دن اسے کابل چھوڑنا پڑا اورطالبان پر امن طور پر کابل میں داخل ہوئے، اقتدار سنبھالا تو مرکزی بینک سمیت خزانہ خالی تھا، دس ارب ڈالر امریکی بینکوں میں تھا جو منجمد کر لیا گیا تھا، حالانکہ یہ پیسے افغان ریاست کے تھے اور ایک امانت تھے۔ اب افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، انسانی حقوق کے علمبردار اور امریکیوں کے دیکھتے ہوئے افغان بھوک سے مر رہے ہیں، بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہیں، مگر کسی کو احساس تک نہیں، امریکہ اقوام متحدہ کے اداروں کو بھی کام کرنے اور خوراک پہنچانے سے روکے ہوئے ہے، اب بھی صرف پاکستان ہے جو اسلامی اخوت کے تقاضے اور عالمی اصولوں کی پاسداری کر کے افغانستان کے عوام کو خوراک اور ادویات پہنچا رہا ہے، اپنے ازلی دشمن بھارت کو بھی افغانستان کیلئے گندم لے جانے کا راستہ دے رہا ہے، حالانکہ یہی بھارت افغانستان کی سابقہ حکومتوں سے مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا رہا ہے، دہشت گردی کو سپانسر کرتا رہا، مگر افغانوں کیلئے اسے بھی راہداری کی سہولت دی گئی۔ روزانہ سینکڑوں ٹرکوں میں امدادی سامان، سردی سے بچنے کے لئے بستر اور کپڑے اور دوائیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں، لیکن جو دنیا تیس سال پہلے افغانوں کو لڑنے کیلئے اربوں ڈالر دیتی رہی ہے، وہ آج بھوکے بچوں کیلئے دودھ بھی دینے کو تیار نہیں، طالبان نے تبدیل ہو کر دنیا کے مطالبات مان لئے ہیں، مگر پھر بھی پتھر دل امریکہ خود آگے بڑھ کر ان کی حوصلہ افزائی اور افغانستان کو امن دینے کی کوشش کر رہا ہے نہ دوسرے ممالک کو کرنے دے رہا ہے۔