گھریلو استعمال کیلئے قدرتی گیس کا ستعمال عوام کی سہولت کا ایک ذریعہ ہے۔ اور یہ دیگر ایندھنوں سے سستا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے عوام کو لکڑی وغیرہ سے نجات ملی ہے۔ گو یہ اتنا پورے ملک میں تو استعمال نہیں ہو رہا مگر جہاں جہاں قدرتی گیس کی فراہمی ممکن ہے ان علاقوں میں گھریلواستعما ل کیلئے یہ ایک سستا ترین ذریعہ ہے اور اس کے استعمال کی وجہ سے فضائی آلودگی میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ جہاں اگر گھریلوضروریات کیلئے لکڑی کا استعما ل ہوتا تھایا ہے تو یہ ایک گراں ترین ذریعہ ہے اب بھی ملک کے بہت سے حصوں میں ایندھن کا ذریعہ ہے۔ قدرتی گیس کے گھریلو استعما ل نے ایک تو عوام کیلئے سستے ایندھن کی سہولت مہیا کی ہے اور دوسرے اس سے فضائی آلودگی کا مسئلہ بھی کھڑا نہیں ہوتا مگر شائدعوام کو مہیا یہسستا ایندھن بھی پہنچ سے دور ہو جائے کہ حکومت اس کے گھریلو استعمال پر گاہے بگاہے پابندیوں کا عندیہ دیتی رہتی ہے۔ اب کے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ قدرتی گیس کو گھریلو استعمال کیلئے بند کر دیا جائے۔ اور عوام سلینڈر والی گیس سے اپنا کام چلائیں۔ ویسے دیکھا جائے تو قدرتی گیس کی سہولت سے استفادہ کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ سستا بھی ہے اور ماحول دوست، چاہئے تو یہ کہ اسکے نیٹ ورک میں توسیع ہو اور یہ سہولت ان لوگوں کو بھی ملے جن کو ابھی یہ دستیاب نہیں۔کیونکہ دنیا بھر میں یہ کوشش ہورہی ہے کہ ماحول دوست ایندھن کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہو اور کوئلے سمیت لکڑی جلانے سے چھٹکارا پایا جائے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہی فضائی آلودگی ہے۔ اب اگر پھر سے کہاجا رہا ہے کہ قدرتی گیس کو گھریلو استعمال کیلئے بند کر دیا جائے۔ اس سے گیس کی کمی میں جو فائد ہ ہو گا اس کا کچھ نہیں کہاجا سکتا اس لئے کہ ملک میں جتنے لوگ قدرتی گیس کو گھروں میں استعما ل کر رہے ہیں وہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ پاکستان کا ایک بڑا حصہ تو دیہات پر مشتمل ہے اور ایک فی صد دیہات بھی ایسے نہیں ہیں کہ جہاں قدرتی گیس کا استعمال ہو ر ہا ہو تاہم جہاں اس کا استعمال ہے کم ازکم وہاں درختوں کو خطرہ نہیں ہوگا اور لکڑی جلانے کی صورت میں ماحول دھوا ں دار تو نہیں ہوگا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماحولیاتی مسئلے کو تھوڑا تھوڑ ا کرکے حل کیا جا سکتا ہے ایسے میں اگر قدرتی گیس کی بجائے وہی لکڑی اور گوبر کااستعمال ہو تو ا سکے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اگر پورے پاکستان مین گھریلو ایندھن کے طور پر گیس کو استعمال نہ کیا جائے تو اس سے جو پالوشن میں اضافہ ہو گا اس کا نقصان ا س فائدے سے کہیں زیادہ ہو گا کہ جو ہم گیس کے گھریلو استعمال پر پابندی لگا کر حاصل کریں گے۔ اس لئے اس خیال کو خیال ہی رہنے دیا جائے اور جہاں تک قدرتی گیس گھریلو ضروریا ت کے لئے میسر ہے اُسے اسی طرح رہنے دیں اور ملک میں گیس کے اور ذخائر تلاش کئے جائیں اور ایساممکن ہے۔ کے پی کے کے بہت سے علاقے ایسے ہیں کہ جہاں قدرتی گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں او ر سوئی کے آس پاس بھی گیس کے حصول کیلئے مزید کنویں بھی کھودے جا سکتے ہیں۔ بجائے گیس کی تلاش کے یہ کہنا کہ اس کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جائے تو یہ تو عوام کو ایک سستے ایندھن سے محروم کرنے والی بات ہے۔ا گر گیس کی ذخیروں میں کمی کاخدشہ ہے تو اسے اس طرح رفع نہ کیا جائے بلکہ ملک میں اور خصوصاً کے پی کے میں اس کے ذخیروں کو تلاشا جائے، شنید ہے کہ کوہاٹ ریجن میں اور ڈی آئی خان کے علاقوں میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور اگر واقعی ایسا ہے تو اس کو نکالنے کی کوشش کی جائے اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی اگر کوشش کی جائے تواس کے ذخائر مل سکتے ہیں۔ صرف کوشش کی بات ہے۔ گیس اور تیل کی تلاش پورے ملک میں رہنی چاہئے اور اس سستے ایندھن کیلئے کوششیں جاری رہنی چاہیئں۔ ہاں تلاش میں کچھ تو تگ و دو کرنی ہی پڑتی ہے اور اگر ہم تگ دوسے گھبرائیں گے تو پھر یہ دولت زمین کے سینے میں ہی پوشیدہ رہے گی۔ جہاں تک توانائی کے ذرائع کا تعلق ہے تو وطن عزیز میں اس کی کوئی کمی نہیں اور جہاں بھی بظاہر توانائی کی کمی نظر آرہی ہے وہ ہماری اپنی کوتاہی ہے وطن عزیز کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازہ ہے اور قدرتی گیس کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں اس خطے کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قدرتی گیس کے ذخائر ریکارڈ حجم میں موجود ہیں دوسری طرف بجلی اور پٹرول جہاں توانائی کے اہم ذرائع ہیں وہاں اس کی ترسیل اور ان کو ضرورت کے مطابق صارفین تک پہنچانا اہم مرحلہ ہے خبر ہے کہ پاکستان میں بجلی کی کمی نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ بجلی کی پیداوار کو صارفین تک پہنچانے کے لئے ٹرانسمیشن لائنوں میں گنجائش ہی موجود نہیں ورنہ ہر کسی کو وافر مقدار میں بجلی میسر ہو سکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار توانائی کے ذرائع کی دستیابی اور ان سے خاطر خواہ استفادہ کرنے پر ہے اور ہمارے ساتھ زیادہ تر معاملات میں توانائی کی کمی بجائے ان سے استفادہ کرنے کے حوالے سے کمزوری موجود ہے چین جس کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ توانائی استعمال کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ایک وقت تھا کہ یہ قوم سست اور کاہل تھی اور اب دنیا کی ترقیافتہ قوم بن گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر حکمرانوں نے تسلسل کے ساتھ ایسی پالیسیوں پر عمل کیا ہے کہ مستقبل میں ان کے دوررس اثرات مرتب ہوئے اور چین آج سپرپاور کی حیثیت سے دنیا کے لئے ایک مثال ہے اس نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم دیکھیں تو ہمیں ماضی میں جو حکمران ملے ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر نے وقت گزارنے کو ترجیح دی اور یہ نہیں سوچا کہ قوم کو مستقبل میں جن مسائل کا سامنا ہوگا ان کا بروقت علاج کیا جائے یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے پاس پانی کے ذخائر کی کمی ہے اور جو بڑے ڈیم بنے ہیں وہ بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بنے اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ضروریات میں اضافہ ہوا ہے تاہم پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور دنیا بھر میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی سستی سمجھی جاتی ہے جبکہ ہم دریاؤں کا پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں اور ان سے نہ زراعت کے شعبے میں ہم بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہائیڈل پاورکے منصوبوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ توانائی کے ذرائع کو کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہم اس مسئلے پر قابو پائیں۔ اس میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومت کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اس میں عوامی تعاون کی صورت میں ہاتھ بٹانا ہوگا۔