ہماری تقرری جب ایبٹ آباد کالج میں ہوئی تو امی جان نے حکم دیا کہ ہم ایبٹ آبادمیں ہی گھر کرائے پر لے کر رہیں اور بچوں کو ایبٹ آباد کے اچھے سکولوں میں دخل کریں اور وہیں ان کی پڑھائی کابندوبست کریں۔ ہمارا جائنٹ فیملی سسٹم تھا۔ اور ہم سارے بہن بھائی ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ اپنے تو کوئی بچے نہیں تھے البتہ بھائیوں کے بچے ایبٹ آباد کے سکولوں کالجوں میں داخل کروائے اور ایک مکان کرائے کا لے کر رہنے لگے۔ پہلی تنخواہ لے کر جو گھر پہنچے تو راستے میں جن دکانداروں سے سارا مہینہ قرض لے کر اشیائے صرف لاتے رہے ان کے ادھار ختم کر کے گھر پہنچے تو تقریباً ایک سو روپیہ بیگم کے ہاتھ پر رکھا۔بیگم نے سوال کیا کہ کیا آپ کی تنخواہ صرف سو روپیہ ہے۔ ہم نے کہا نیک بخت یہ جو سارا مہینہ خرچہ چلتا رہا ہے وہ اُدھار پر ہی تو چلتا رہا ہے۔ جن دکانداروں سے اُدھار لیتے رہے ہیں اُن کا ادھار ختم کر کے یہی کچھ باقی بچا ہے جو تمہارے ہاتھ پر رکھ دیا ہے۔ بیگم نے کہا کہ ٹھیک ہے میں ان ہی پیسوں میں مہینہ گزارنے کی کوشش کروں گی مگر مجھے”ہٹی“ کا ادھار نہیں چاہئے۔ جس بھی چیز کی ضرورت ہو گی آپ نقد خرید کرلائیں گے۔ کسی بھی صورت اُدھار نہیں لینا۔ خیر دوسرے دن بڑے بھائی جان گھر سے ڈیڑھ دو من آٹا لے آئے اور جو بھی بچوں کی فیسوں کے علاوہ تھا وہ بیگم نے ہاتھ میں لے لیا اور ہمیں ”ہٹی“کے اُدھار سے منع کر دیا۔وہ دن اور آج کا دن ہم نے کبھی ہٹی سے اُدھار نہیں لیا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بچوں کی پڑھائی چلتی رہی اور اس دوران ہم نے اپنا گھر بھی بنا لیا اور اور بچت بھی ہوتی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم نے ہٹی کے اُدھار سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا۔ اور گھر میں وہی چیز آتی جس کی ضرورت ہوتی۔اُدھار کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دکانداروں نے اپنی دکان سجا کر رکھی ہوتی ہے اور اس سجاوٹ پر جی للچا جاتا ہے اور بہت سی ایسی اشیاء گھر آجاتی ہیں کہ جن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ جب کہ نقد سے انسان صرف وہی شے خریدتا ہے کہ جس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اور یوں بندہ اپنی چادر سے پاؤں باہر نہیں نکالتا اوریوں وہ اپنی حد میں رہتا ہے اور اس میں اللہ کریم بھی برکت ڈالتاہے اور گزارہ اچھی طرح سے چلتا رہتا ہے۔ ہم نے ادھار سسٹم سے توبہ کی تو آج تک کبھی مجبوری کی حالت میں بھی ادھار نہیں لیا۔ اللہ کریم نے فضل کیا اوراپنی تنخواہ میں ہی بچوں کو بھی پڑھا یا، گھر بھی بنایا اور دیگر اخراجات بھی اللہ کے فضل و کرم سے پورے ہوتے رہے۔ بچے بھی ماشا اللہ اپنی پڑھائیاں پوری کر کے بر سر روزگا رہو گئے اور ان کے فرائض بھی اللہ کے فضل سے پورے کئے جاتے رہے۔ہم پوری تسلی سے آج بھی اپنی پنشن میں اچھی طرح سے گزارہ کر رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری بیگم کے اس فلسفے سے وابستہ ہے کہ ”میں گزارہ کر لوں گی مگر ہٹی کا ادھار نہیں مانتی“ ہم نے جو اُدھار لینے سے انکار کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مدد کی ہے اور ہم اچھی طرح سے اپنی زندگی ہنسی خوشی گزار رہے ہیں۔ اسی بات کو ہم اگر ملکی سطح تک لے جائیں تو ہمارا ملک اسلئے ترقی نہیں کر سکا کہ ہم نے ہر ادارے سے اُدھار لیا ہے اور یہ اُدھار کبھی بھی اُس جگہ استعمال نہیں ہوا کہ جس کیلئے لیا گیا تھا۔ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ادھار نہیں لینا اور جو ضروریات ہیں ان کو ملکی وسائل سے پورا کرنا ہے، جو اشد ضرورت ہے اسی کو ترجیح دیں گے اور جن چیزوں کے بنا ہماری زندگی کا پہیہ چل سکتا ہے ان کو چھوڑ دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کاقرضہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔مگر ہمارے ہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔قرض پہلے لیا جاتا ہے اور پھر اس کا مصرف ڈھونڈا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ میں ایک ادارے میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہ لوگ اپنے ادارے کے ایک قرض کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔اس ادارے کیلئے باہر سے امداد ملی تھی اور اس ادارے کی ترقی کیلئے اُس کے افسر (زبانی) پلاننگ کر رہے تھے۔ پلاننگ یہ تھی کہ فلاں کو فلاں ملک میں ”سٹڈی“ کیلئے بھیجا جائے گا اور فلاں کو فلاں ریسرچ کیلئے فلاں جگہ بھیجا جائے گا۔ اور یہ سٹڈی صرف اُس قرض کواُڑانے ہی کا ذریعہ تھی اور اس کا فائدہ وہ نہیں تھا کہ جس کیلئے کسی ملک نے ہمیں اُدھار دیاتھا۔ ادارے کی عوامی خدما ت کے شعبے کی کارکردگی کو بڑھانے کیلئے اگر یہی وسائل کام میں لائے جاتے تو نہ صرف ادارے بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہوتا۔