میری عمر کے لوگوں نے بھی دیکھا نہیں اپنے بزرگوں سے سنا ہی ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے جب مسلمان اور ہندو اکٹھے رہتے تھے تو زیادہ تر کاروبار ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا، پنجاب میں محدود سی زراعت مسلمانوں کے پاس تھی، یہاں بھی بڑے زمیندار سکھ ہی تھے، مسلمان اپنی اکثر گزر اوقات تو جیسے تیسے محدود وسائل سے کر لیتے، مگر شادی غمی کے موقع پر انہیں مزید رقم کی ضرورت پڑتی تو ہندو تاجر ہمدرد بن کر آ جاتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ رقم مسلمان خاندان کے بڑے کو دے جاتے، مگر اگلے دن ایک سٹامپ پیپر پر انگوٹھا لگوا لیتے، جس پر آئندہ فصل آدھی سے زیادہ قرضہ دینے والے کو دینا منظور کرا لیتا، یہ ساہوکار کہلاتے تھے، پھر اس پر قرض پر سود جس کو بیاج کہتے تھے، وصول کرتے، اس سٹامپ پیپر پر مجبوری میں انگوٹھا لگا کر مسلمان نہ صرف ساری زرعی اجناس اس ساہوکار کے حوالے کرنے پر مجبور ہوتا بلکہ بیاج کی مد میں اگلے سال کی فصل بھی دینی پڑتی۔ جدید دنیا میں مقروض کا کردار تیسری دنیا کے غریب ممالک بن گئے ہیں جو محدود وسائل کے حامل ہیں، مگر خرچ کرتے وقت اپنے وسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور آئی ایم ایف ہندو ساہوکار کی طرح ہمدرد بن کر قرض دینے پہنچ جاتا ہے اور ایسی ایسی شرائط پر دستخط کروا لیتا ہے جو بعد میں پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ کھیل تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ کب سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ یہ ترقی پذیر ممالک جن کا تعلق زیادہ تر افریقہ اور کچھ کا جنوبی ایشیاء سے ہے، آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کے چنگل میں پوری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور یہ ممالک قرض اتارنے کیلئے تو مزید قرض اور ان کے ساتھ شرائط قبول کرنے پر مجبور ہیں ہی، مگر اصل مجبور اور مقہور تو ان ممالک کے غریب عوام ہیں، جو قرض اور بیاج چکاتے چکاتے زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں، اگر معاملہ کسی عالمی فورم میں جائے تو امریکہ اور برطانیہ وغیرہ وہاں سر پنچ بن کر مقروض ممالک پر مزید پابندیاں لگاتے ہیں۔ یہ ایک معلوم اور دیرینہ چکر ہے جو غریب اور امیر ممالک کے درمیان چل رہا ہے، اس میں فریاد کرنے یا رونے چیخنے سے کوئی ترس نہیں کھاتا۔ ہم اب بھی اپنے اخراجات کم نہیں کرتے، غیر ضروری اخراجات کو محدود نہیں کرتے اور دن بدن آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے جارہے ہیں، اگرچہ کچھ دوست ممالک امداد دیتے ہیں مگر ہماری خرچ کرنے کی حکمت عملی اتنی خراب ہے کہ معیشت کو سنبھالنے میں یہ بھی مدد نہیں دے سکتے، اب کھایا کسی نے ہے لیکن بھرنا تو ہم نے ہی ہے، کیونکہ امریکی ساہوکار ادارہ معاف کرتا ہے نہ ترس کھاتا ہے۔اس وقت ترقی یافتہ ممالک نے جان بوجھ کر عالمی معیشت کو اس طرح استوار رکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کوقرض لئے بغیر چارہ نہیں رہتا اور وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے ترقیاتی منصوبوں اور بجٹ کو بنانے کیلئے قرض پر قرض لیں اور اس طرح وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرض کے چنگل میں پھنستے جاتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف اگر کورونا وبا ء نے ملکی عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیوں کا بھی اس میں عمل دخل ہے کہ ترقی پذیر ممالک ان سے اشیاء درآمد کریں اور اپنے ملک میں کوئی ایسا کارخانہ نہ لگائیں کہ جن سے ان ممالک کی اجارہ داری کو خطرہ ہو۔اس تمام چکرسے نکلنے کیلئے اگر ترقی پذیر ممالک کے پاس کوئی راستہ ہے تو خود کفالت ہے جس کے ذریعے وہ ترقی یافتہ ممالک کے قرضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، اس طرح ترقی پذیر ممالک کو چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کا فارمولا بھی طے کرنا ہے کہ وہ ان اشیاء پرقیمتی زر مبادلہ خرچ کرنے سے گریز کریں جن کے نہ ہونے سے معمول کی زندگی متاثر نہیں ہوتی۔دیکھا جائے تو ترقی پذیر ممالک میں کفایت شعاری کی پالیسی اپنا کو بہت سے مسائل کوحل کیا جا سکتا ہے، جس کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بالائی سطح پر پہلے اخراجات کی کمی کی مثال قائم کی جائے۔