سیاست دانوں کو ہم دو طبقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ کہ جو سیاست میں فارورڈ لائن میں ہیں اور دوسرے جو ان کے چاہنے والے ہیں۔ جہاں تک سیاست کی فرنٹ لائن کا تعلق ہے تو یہ ایک ہی قوم ہے اور اس کے ارکین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ٹی وی اور جلسے جلوسوں میں یہ اس طرح دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے مگر جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو جیسے شیر شکر ہوں۔ نہ کسی سے کوئی اختلاف ہے اور نہ کسی سے کوئی دشمنی ہے۔ سب سے بھائی چارہ ہے مگر جیسے ہی ان کو بولنے کو موقع ملتا ہے کہ جہاں ان کوسننے والے عام عوام ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ایکدوسرے کو کچا چبا جائیں گے۔ یہ صرف عوام کو دھوکا دیتے ہیں اور جب یہ لوگ تقریر کر کے جاتے ہیں تو مجمع اس قدر جذباتی ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو جینے نہیں دے گا اور اکثر یہ ہوا ہے کہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کی تقریر سن کر جو لوگ اپنے علاقے میں گئے ہیں تو واقعی ان کی آپس میں لڑائیاں بھی ہوئی ہیں۔ اور بات تھانے کچہری تک بھی پہنچی ہے۔مگر سیاست دان لیڈروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو شیر و شکر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف جماعتوں کے فالوورز ہیں۔ جب بھی بات چیت ہوتی ہے تو یہ کارکن اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی سرپھٹول کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر لیڈروں کی بات الگ ہے کہ یہ تو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں۔71ء کے الیکشن میں اے این پی اور مسلم لیگ (قیوم) جو صرف مسلم لیگ تھی میں اکثر چپقلش رہتی تھی اور یہ چپقلش اکثر لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تھی۔ جب بھی ان کے اراکین یک جا ہوتے ہیں تو کچھ نہ کچھ جھگڑا ضرور ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک تصویر اخبار میں چھپی کہ جس میں ولی خان صاحب اور قیوم خان صاحب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ ہم اس وقت صوابی میں تھے اور صوابی میں ان دونوں جماعتوں میں جذباتی تناؤ تھا۔ یہاں تک کہ ان کے شادی ماتم بھی جدا جدا تھے۔ جیسے ہی یہ تصویر چھپی ان دونوں جماعتوں کے کارکن اخباریں لئے ایک دوسرے کو دکھا رہے ہیں کہ ہم تو ان کی وجہ سے ایک دوسرے سے شادی غمی چھوڑ رہے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے گلے ملتے اورخوش ہوتے ہیں۔ اس کے بعد صوابی کی حد تک ہم نے تبدیلی دیکھی کہ ان کا جذباتی پن بہت حد تک مدھم پڑ گیا۔ اصل میں دیکھا جائے تو سیاست دانوں کی شادی غمی ایک ہے جبکہ دوسری طرف پارٹی ورکر انتہائی جذباتی ہیں اور وہ اپنے لیڈر کے بارے کسی بھی طرح کہ بات نہیں سننا چاہتے اور اگر کوئی شخص دوسری پارٹی کے لیڈر کو برا بھلا کہتا ہے تو اس کو جینا محال کر دیا جاتا ہے۔ عوام کی یہی جذباتیت لیڈروں کی طمانیت کا سبب ہے۔ یہی بات ہمارے لیڈروں کو پسند ہے اور اسی پہ ان کی دا ل روٹی چل رہی ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ لیڈر کارکنوں کو بھی یہ درس دے کہ سیاست میں اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا ہے بلکہ آپس میں اچھے مراسم رکھتے ہوئے سیاسی اختلافات بھی رہیں گے دیکھا جائے تو اس وقت ہماری سیاست میں تشدد اور عدم برداشت کا جو عنصر شامل ہوا ہے اس کو ختم کرنے کے لئے سیاسی قیادت پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاکہ نہ صرف انتخابی عمل کے دوران نت نئی دشمنیاں پروان چڑھنے کے عمل کو روکا جائے بلکہ عام حالات میں بھی معاشرے سے تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرے کی رائے کو سمجھنے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کی عادت لوگوں میں عام ہو جائے اسی میں سیاسی رواداری کا راز پنہاں ہے اور اسی میں عوام کی بھلائی بھی ہے اب اس طرف عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور صرف بیانات اور اعلانات سے یہ اہم کام نہیں ہو سکتا۔