وچنے کا مقام ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کے بوجھ تلے کیوں دبے جار ہے ہیں اور معاشی اصلاحات یاٹیکس ریفارمز کی بجائے قرضے کے حصول کو ایک آسان ذریعہ سمجھا گیا ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کا ملک کی بقا اور سلامتی پر کل کلاں کتنا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ کوئی بھی کام کاج ہو تجارت ہو وہ پیسوں کے بنا نہیں چل سکتے اور پیسے درختوں پر نہیں اُگتے۔ملک ٹیکسوں کی ریکوری سے چلتے ہیں اور ٹیکسوں کے اس نظام کو منصفانہ کہا جاتا ہے کہ جو حصہ بقدر جثہ کے فارمولا پر مبنی ہو۔ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ سواے سرکاری اہلکاروں یا ان نجی اداروں کے ملازمین کے کہ جن کو مشاہرہ بنک کے چیک کی صورت میں ملتا ہے کسی بھی فرد کی اصل اور صحیح آ مدنی کا حکومت کو پتہ ہی نہیں۔ کیونکہ اکثر پیشوں میں لین دین کیش میں ہوتی ہے اسی لئے اس ملک میں ایک منصفانہ ٹیکسیشن کا نظام وجود میں آ ہی نہیں سکتا کہ جب تک ملک کی معیشت کو دستاویزی نہ کیا جائے۔اس ملک کے وسائل سے جو طبقے سب سے زیادہ مستفید ہو رہے ہیں اور مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اتنا ٹیکس ادا نہیں کر رہے کہ جو انہیں اپنی آ مدنی کے مطابق ادا کرنا چاہئے۔ اپ یقینا میڈیا کے ذریعے جلسے جلوسوں میں اسمبلیوں میں تقاریر سنتے ہوں گے۔ کیا اپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اس قسم کی دھمکی دیتے سنا ہے کہ اگر حکومت نے فلاں فلاں تاریخ تک ملک کی معیشت کو دستاویزی نہ بنایا تو ہم دھرنا دیں گے یا لانگ مارچ کریں گے۔اس سردمہری کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ اس ملک میں منصفانہ ٹیکسیشن کا نظام لانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے ہی نہیں اور یہ لوگ عوام الناس کے معاشی استحصال کو برا نہیں تصور کرتے۔ جہاں تک قرضوں پر معیشت کو ترقی دینے کی بات ہے تو قرضہ بہر حال قرضہ ہی ہوتا ہے جو مقروض کو کسی دن سود کے ساتھ واپس کرنا ہوتا ہے۔ اس پر مطمئن ہونا اپنے آ پ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ دنیا میں درجنوں ایسے ممالک موجود ہیں جو آئی ایم ایف سے قرضے لئے بغیر بہتر ٹیکس ریفارمز کے بل بوتے پر اپنی اپنی معیشتیں بخوبی چلا رہے ہیں۔ آ خرہم کیوں نہیں چلا سکتے؟کیا ہمارے پاس قابل ماہرین معیشت کا قحط الرجال ہے یا پھر جان بوجھ کر اس سمت قدم نہیں اٹھائے جار ہے۔آپ صرف اس ملک کی پارلیمانی جمہوریت کو ایک آ ئیڈیل پارلیمانی جمہوریت کہہ سکتے ہیں کہ جس میں دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی پارٹیاں ہوں ہمارے ہاں تو ان گنت جماعتیں ہیں۔ بے شمار سیاسی پارٹیوں نے اپنے آپ کو الیکشن کمیشن کی کتابوں میں درج کرا رکھا ہے پارلیمانی جمہوریت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کے اندر ہر شعبہ زندگی پر ایک تھنک ٹینک فورم موجود ہو اور اس کے اراکین یا ممبران اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔ ان کا چوبیس گھنٹے یہ کام ہو کہ وہ اپنے اپنے شعبے میں ریسرچ کرتے رہیں اور ان میں کا م کرنے والے افراد کے پاس اپنے اپنے شعبے کے مسائل کا حل ان کی انگلیوں کی نوک پرہو۔ کتنا اچھا ہو کہ ایک دوسرے پر اندھیرے میں تیر چلانے کے بجاے اگر حکومتی اور اپوزیشن کے ر ہنما ملک کو درپیش مسئلے پر دلائل کے ساتھ ٹیلی ویژن سکرین پر آ کر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر عالمانہ بحث مباحثہ کریں اور دلائل سے متعلقہ مسائل پر اپنا اپنا موقف بیان کریں۔کیونکہ ایک وقت آئے گا کہ ان مسائل کا خاتمہ کئے بنا کوئی چار ہ نہیں رہے گاتاہم وقت گزرنے کے ساتھ مسائل بڑھتے چلے جار ہے ہیں اور ان کا حل اگر ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہوسکتا ہے۔ اس لئے حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نیچا دکھانے کی جو بھی کوشش کریں، ملک کے بقاء اور خاص کر عام آدمی کی مشکلات کے خاتمے میں ایک دوسرے سے تعاون کے موقع کو ضائع نہ جانے دیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ