تحمل اور بردباری

غصہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جو کسی پر بھی اور کسی وقت بھی حملہ کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کی کوئی وجہ ہی ہو۔ بعض دفعہ انسان کا جی ویسے بھی چاہتا ہے کہ وہ کسی کے گلے پڑ جائے۔ گو ہم جیسا بندہ تو دوسروں کو بھی جب ایسی حالت میں دیکھتا ہے تو اُس مقام سے کھسکنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچی بات ہے کہ ہم کو بچپن ہی سے یہ جھگڑے تانتے سے ڈر لگتا ہے اور ہم اگر کسی ایسے مجمعے میں ہوں کہ جہاں باتوں باتوں میں تیزی آجائے تو ہمار ا دل تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ باتوں کی یہ تیزی جب تک جھگڑے کی صورت اختیار کرے ہم کو وہاں سے نکل جانا چاہئے۔ اور ہم ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں اور اس بات پر ہمیں بہت دفعہ لعن طعن کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر کیا کریں کہ ہم بچپن سے ہی ایسے بہادر ثابت ہوئے ہیں کہ کسی کی سخت باتوں کو بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ہمیں یاد ہے کہ سکول کے زمانے میں بھی جب دوست یار باتوں میں باتوں میں بات جھگڑے کی طرف لے جاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے تو ہم وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ بات صلح صفائی پر ختم ہوئی مگر ہم اس وقت تک معاملے کی جگہ سے کافی دور نکل چکے ہوتے تھے۔ اور اس پر دوستوں سے طعن و تشنیع کے ڈونگرے بھی برسائے گئے مگر ہم اپنی عادت سے مجبور ہیں اور ہم کسی کو بھی جھگڑتے اور ایک دوسرے سے گئتھم گتھا ہوتے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ہم دوستوں کو ہمیشہ کہتے کہ یار بات تو کچھ ہوتی نہیں اور آپ لوگ اُسے لڑائی جھگڑے تک لے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ دوسرے ہی لمحے پھر سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو پھر جھگڑا مول لینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔لیکن طالب علمی کے زمانے میں کلاس میں منہ پرہاتھ پھیرنے کی روایات عام تھیں کہ بچُو باہر نکلو میں تم کو دیکھ لوں گا۔اوریہ دیکھنا کیا ہوتا تھا کہ سکول کے گیٹ سے باہر بستے روڈ پر ناچ رہے ہوتے اور ایک دوست دوسرے کے نیچے پڑا ہوتا اور گھونسے تھپڑ چل رہے ہوتے۔ ہم یہ نظارہ دیکھنے کو کبھی بھی رکے نہیں اور جب دوست یار ہم کو پہنچے تو ان سے روداد سن لی۔۔بعض دفعہ تو اس کے نتیجے میں دوسرے دن اسمبلی میں جھگڑا کرنے والے دونوں فریق اسمبلی ختم ہونے تک مرغے بنے ہوئے دکھائی دیئے۔ او ر اسمبلی ختم ہونے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب کی لاٹھی سے اُن کی درگت بنتی ہوئی دیکھی مگر یہ نشہ کچھ ایسا ہے کہ دوسرے دن پھر چھٹی کے وقت سکول گیٹ کے باہر پھر سے وہی منظر دیکھنے کو ملے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو دل بڑا کرنے کو کہا ہے کہ لوگوں کو تماشہ دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ کہ یہاں ایک دوسرے کو مار پیٹ کر پھر سے گاؤں کے راستے میں وہی گپ شپ کرنی ہے‘ مگر سکول کے گیٹ سے باہر نکل کر یہ تماشا لگانا کچھ دوستوں کی عادت ہے۔ او ر ہم کو اس عادت سے ہمیشہ ہی چڑ رہی ہے۔مگر ہمارے ہاں کسی کی سنتا کون ہے۔