ذمہ داری کا احساس

ملک کی مثال بھی ایک گھر کی طرح ہوتی ہے کہ اس میں ایک شخص پورے گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ گھر کے سارے اخراجات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ چاہے اکیلا کمانے والا ہو یا اُس کے ساتھ دوسرے بھی مدد کر رہے ہوں مگر ذمہ داری اور فرائض کا تعین سب کا ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ لوگ گھر کے ذمہ دارہو جائیں تو گھر کا نظام گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک اللہ کے بندے کا اپنے مرید کے ساتھ کسی گاؤں سے گزر ہوا۔ بھوک لگی تھی چاہتے تھے کہ اُن کی خاطر داری ہو مگر گاؤں والوں نے اُن کو دھتکار دیا اور ان کو کچھ بھی کھانے پینے کو نہ دیا۔ گاؤں سے نکلتے وقت اللہ کے بندے نے اُس گاؤں والوں کو دعا دی کہ اللہ کرے کہ ہر گھر میں ملک پیدا ہو۔ وہاں سے وہ ایک دوسرے گاؤں میں پہنچے تو ان لوگوں نے ان کی خوب خدمت کی کھانے پینے کو دیا اور ان کے آرام کا بھی بندوبست کیا۔ جاتے ہوئے اللہ کے بندے نے اُس گاؤں والوں کو دعا دی کہ اللہ کرے کہ تمہارے گاؤں کا ایک ہی ملک ہو۔ گاؤں سے باہر نکلے تو مرید نے پوچھا حضرت آ پ کی جس گاؤں نے کوئی مدد نہ کی اور یہاں تک کہ روٹی کا بھی نہ پوچھا اُس کو تو آپ نے بہت سے مَلکوں کی دعا دی اور جس کے لوگوں نے آپ کی خوب آؤ بھگت کی، کھلایا پلایا اس کے لوگوں کو آپ نے ایک ہی ملک کی دعا دی کیا یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ پیر صاحب نے کہا تم ابھی نہیں سمجھو گے ایک سال بعد ادھر آئیں گے تو تم کو پتہ چلے گا کہ کس کو دعا دی ہے اور کس کو بد دعا دی ہے۔ سال بعد پیر اور مرید دونوں پھر ان گاؤں کی طرف آئے۔ جس گاؤں کو بہت سے مَلکوں کی دعا دی تھا وہاں تباہی اور پربادی تھی اور جس گاؤں کو ایک ملک کی دعا دی تھی وہ گاؤں خوش حال تھا اور اس گاؤں کے لوگ آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے اور جوحکم بھی ملک دیتا سارے اُس پر عمل کرتے اور کسی قسم کا فتنہ فساد وہاں نہیں تھا۔ جب کہ پہلے گاؤں میں جہاں سارے گھر ہی ملکوں کے تھے وہاں تباہی اس لئے تھی کہ کوئی کسی کا کہنا مانتا ہی نہیں تھا اور ہر گھر میں بے اتفاقی کا دورہ تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں خوشحالی نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ کہنے کی بات یہ کہ جس بھی ملک میں ہر شخص کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین ہو گا اور سارے لوگ جہاں اپنے حقوق کے طلب گارہوں وہاں وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتے ہوں تو اس ملک میں خوشحالی کے ڈیر ے ہوں گے۔ جہاں ہر شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھتاہوا اور کوئی دوسرے کے کہا نہیں مانے گا وہاں خوشحالی نام کی کسی چیز کو گزرنہیں ہو گا۔ اس لئے کہ کسی بھی ملک یا گاؤں کی ترقی کا راز ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے میں ہے اور جہاں ایک دوسرے سے چپقلش ہو گی وہاں ترقی کا گزرہونا نا ممکن ہے۔ اتفاق میں کہتے ہیں کہ برکت ہوتی ہے اور اس برکت کا سبب یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور یوں کسی کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی اور جب سب کے سارے کام بخیر و خوبی ہوتے ہیں تو اُس علاقے میں خوشحالی ہی تو ہو گی اور جہاں ہر بندہ خود سر ہو گا تو ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے کام آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور معاشرہ تو ترقی تب ہی کرتا ہے کہ جب سارے باسی مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور کسی کا کوئی بھی کام باقی نہ رہے تو اسی کو تو خوشحالی کہتے ہیں اور یہ اسی اتفاق سے آتی ہے کہ جس میں ایک بڑا ہو ہو اور سارے باسی اُس کی تعظیم بھی کریں اور اُس کے کہنے پر عمل بھی کریں اور جب ہر آدمی اپنی ہی بات پر اڑا ہو گا تو پھر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ا ور کہتے ہیں کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ اسی لئے جہاں نا اتفاقی ڈیرے ڈالتی ہے تو وہاں خوشحالی کا آ نا ناممکن ہو جاتا ہے۔معاشرے تب ہی ترقی کرتے ہیں کہ جب ہر شخص ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا احساس کرے اور ایک دوسرے کی مدد کرے۔ ایک گھر کا بھی اگر جائزہ لیں تو وہ گھر کہ جس کا ایک ہی سربراہ ہوتا ہے اور سارے گھر کے مکین اُس کے تابعدار ہوتے ہیں تو وہ گھر ہمیشہ خوش حال ہوتا ہے۔