سیاسی منظر نامہ

وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ ہمارے عوام میں برداشت بہت ہے اور ان کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن  تاحال گو مگو کی کیفیت میں ہے  کہ کیا کرے، پی ڈی ایم کے قیام کے وقت جو عزائم ظاہر کئے گئے تھے، ان  میں سے اکثر تکمیل کے منتظر ہیں۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ حکومت کے خلاف کیا حکمت عملی اختیار کی جائے، نہ دھرنے پر اتفاق ہو سکا اور نہ ہی اسمبلیوں سے استعفوں پر، ویسے بھی سیاسی جماعتیں اب بلدیاتی انتخابات میں اتر چکی ہیں، نئی سیاسی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی خیبر پختونخواہ حکومت نے سب سے پہلے کی روایت برقرار رکھی ہے اور جماعتی انتخابات کا کیس عدالت سے جیت کر تیزی سے تیاریاں کرکے اب تو پولنگ کے قریب ہے سیاسی گٹھ جوڑ ہو رہے ہیں اس طرح سیاسی معاملات میں صوبے کی برتری برقرار ہے۔ عام طور پر ضمنی انتخابات اپوزیشن کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں لیکن لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کا ضمنی الیکشن اپوزیشن جیت کر بھی ہار گئی، اگرچہ مسلم لیگ نون کی امیدوار جیت گئی، لیکن یہ مقابلہ حکومتی پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی پی پی کے ساتھ ہی ہوا اور اپوزیشن کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنا، نون لیگ کو اپنی سیٹ تو واپس مل گئی، یہ ان کے گھر کی سیٹ تھی مگر اس الیکشن سے پیپلز پارٹی میں نئی امید جاگ گئی، اس حلقے سے 2018 میں 5500 ووٹ لینے والے اسلم گل نے ضمنی الیکشن میں 35 ہزار ووٹ لے کر آصف زرداری کو جگا دیا، پیپلز پارٹی یہ سمجھنے لگی ہے کہاگر پنجاب میں محنت کرکے پارٹی کو منظم کیا جاے تو الیکشن میں ووٹ لئے جا سکتے ہیں، اب وہ یہی تیاری کرنے لگی اور اسی دوران میاں نواز شریف کے خلاف بھی بیانات شروع کر دیئے، حکومت کیلئے یہی بہت کامیابی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھ گئے ہیں، س صورت حال سے مولانا فضل الرحمان زیادہ دل برداشتہ ہو سکتے ہیں اور اب عملی طور پر پی ڈی ایم  کا وجودخطرے میں ہے  حکومت کو اور کیا چاہئے، نون لیگ نے کراچی میں گرین لائن ٹرانسپورٹ منصوبے کا علامتی افتتاح کرنے کا  جو پروگرام بنا  تھا جو بد مزگی کے ساتھ ناکام ہوگیا۔ پہلے تو نون لیگ دعوی کیا کرتی تھی کہ حکومت ان کے مکمل کیے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا رہی ہے مگر اب یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ منصوبہ ہمارا تھا، ہم نے شروع کیا تھا، بہرحال سیاست میں جمود سا آ گیا ہے حکمران جماعت کو کسی طرف سے کوئی سنجیدہ خطرہ دکھائی نہیں دے رہا، وہ بلدیاتی انتخابات اور پھر عام انتخابات کیلئے بنیادیں مضبوط کر رہی ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بلدیاتی انتخابات میں تجرباتی طور پر استعمال کر کے عام انتخابات سی وی ایم کے ذریعے کرانے اور  ان کے ذریعے 80لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔