سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ اور امریکیوں کیلئے کیسا رہا یہ تو وہ ہی جانیں، مگر افغانستان کیلئے بہت اچھا رہا، وہ پاگل تھا، جنونی یا نفسیاتی مریض، لیکن یہ جان گیا تھا کہ امریکہ کا دنیا میں ہر جگہ ٹانگ اڑانا اور فوج بھیج کر لڑائی کرنا خود امریکہ کیلئے نقصان دہ ہے، اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت مول لے لی مگر شام، عراق اور افغانستان سے فوج واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا‘ قطر میں مذاکرات ہوتے رہے اور پھر معاہدہ ہو گیا کہ امریکہ نومبر سے پہلے افغانستان سے نکل جائے گا، مگر بیس سال سے ڈیرہ جمائے فوجیوں کا اتنی جلدی نکلنا مشکل ہو گیا اور دوسری طرف طالبان واپس آگئے اور شمال سے مختلف شہروں پر قبضہ کرتے کرتے دارالحکومت کابل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور پھر اچانک خلاف توقع ایک صبح کابل کے ایوان صدر پر آکر دستک دی، صدر اشرف غنی سے جو کچھ اٹھایا جا سکا، وہ سمیٹ کر نکل بھاگا، طالبان نے کسی کو روکا نہ مارا، لیکن سابقہ حکومتی سیٹ اپ سے متعلق سارے لوگ بھاگنے لگے، کابل ایئر پورٹ پر افغانوں کی قطاریں لگ گئیں، فوجی جہاز میں غیر ملکیوں سے زیادہ افغان شہری بیٹھ کر ملک سے نکلنے لگے بلکہ جہاز کے اندر جگہ نہیں ملی تو اس کے ٹائر اورلینڈنگ گیئر باکس پر بیٹھ گئے، اس دوران کئی شہری جہاز سے گر کر مر بھی گئے۔ اس صورت حال کے پیش نظر طالبان نے دنیا کو موقع دیا کہ وہ اپنے شہریوں کو نکال کر لے جائے، امریکی فوجی ایئرپورٹ پر تعینات کرنے کی اجازت دی اور اس طرح امریکی فوجی اور دوسرے لوگ آہستہ آہستہ نکلنے لگے، اگرچہ امریکہ اپنی مرضی سے افغانستان سے نکلا مگر طالبان کو ناکام کرنے اور ان پر اقتصادی دبا ڈالنے کی سازش کی، امریکی بینکوں میں افغان سرمایا روک لیا اور اپنی امداد بھی بند کر دی، امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے باقی دنیا نے بھی طالبان کی وجہ سے افغانستان کے عوام کو بھی تنہا چھوڑ دیا اور وہاں آہستہ آہستہ بھوک و افلاس نے ڈیرے جمانے شروع کر دئیے۔ اس وقت صرف پاکستان سے سرکاری اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے عوام کو کسی حد تک امداد دی جا رہی ہے، بھارت نے بھی پاکستان سے راہداری مانگی کہ افغانوں کو خوراک اور امداد بھیجے گا، پاکستان میں بہت سے تحفظات کے باوجود افغانوں کیلئے بھارت کو راہداری دے دی، ابھی پاکستان اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک کو افغانستان میں انسانی المیہ جنم لینے سے پہلے امداد دینے پر قائل کر رہا ہے، اس سلسلے میں اسلامی کانفرنس OIC کا خصوصی اجلاس اسلام آباد میں ہورہا ہے، جس میں افغان عوام کیلئے مستقل بنیادوں پر امداد کے طریقوں پر غور ہوگا، اگرچہ طالبان میں بھی تبدیلی آ چکی ہے، آج طالبان 2001 والے نہیں، انہوں نے دنیا کے تحفظات ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے اب دنیا کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔افغان وزیر خارجہ کی طرف سے عالمی برداری سے ہمدردی کے تحت افغانستان کے منجمد اکاؤنٹس کی بحالی کی اپیل پر اب موثر اور تیز رد عمل دکھاتے ہوئے ان اکاؤنٹس کو بحال کرتے ہوئے افغان عوام کی مشکلات کو آسان بنانے کی ضرورت ہے حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے جس حالت میں افغانستان کو چھوڑا ہے اب اسے کہیں زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے اور آئے روز دھماکوں اور ان کے نتیجے میں ہلاکتوں کا سلسلہ بھی رکا ہو اہے۔اب عالمی برادری پائیدار امن کے لئے افغان حکومت کی مدد کرے۔