سیاسی صورتحال

خیبرپختونخوا جہاں آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا تحریک انصاف کی حکومت ہے، وہاں بلدیاتی انتخابات کرانے میں صوبائی حکومت دیگر صوبوں سے آگے رہی اور آج یہ اہم مرحلہ سر ہو جائیگا۔دیکھا جائے تو بلدیاتی اداروں کو حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کے حل اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کا ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ وہ ادارے ہیں جن کا عام کی آدمی کی روزمرہ زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ تاہم بد قسمتی سے ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کی مضبوطی کی طرف ماضی میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور زیادہ تر غیر جمہوری ادوار میں ہی یہ الیکشن کرائے جاتے رہے۔ایسے حالات میں کہ جب خیبر پختونخوا میں یہ اہم مرحلہ آج شروع ہورہا ہے اور دیگر صوبوں میں ا سکے لئے تیاریاں جاری ہیں تو سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی مضبوطی اور اس نظام کی فعالیت میں اپنا کردار ادا کریں۔دیکھا جائے تو بلدیاتی  انتخابات او ر اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی مقامی قیادتوں سے ہی سیاسی جماعتوں کو ایک نرسری ملتی ہے جہاں سے سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے والے آج دنیائے سیاست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔اس وقت ایک طرف اگر مقامی انتخابات کی گرما گرمی ہے تو دوسری طرف آنے والے قومی انتخابات کیلئے بھی جماعتوں نے کمر کس لی ہے اور اس وقت لگتا ہے کہ تمام جماعتوں نے غیر اعلانیہ انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اور ایک طرح سے مستقبل کے خدوخال بھی کسی حد تک واضح ہونے لگے ہیں۔مستقبل کے دوستوں کے ساتھ رویے نرم رکھے جانے کی روش چل پڑی ہے اور سیاست میں چونکہ دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں کونسی جماعتیں اتحادی ہوں گی۔ جو جماعتیں آج آپس میں بر سر پیکار ہیں وہ آنے والے دنوں میں ایک ساتھ چلتی نظر آسکتی ہیں اور جو آج ایک دوسرے کا دم بھر رہی ہیں عین ممکن ہے کہ وہ مخالف پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں۔ تاہم یہ عمل اپنے مقررہ وقت پر ہی انجام پاتا نظر آتا ہے یعنی قبل ازوقت انتخابات کی بجائے مقررہ وقت پر ہی انتخابی میدان سجنے کے امکانات زیاد ہ ہیں۔اس وقت حکومت بھی چاہتی ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے میں کامیاب ہوجائے  تو بہتر پوزیشن میں عوام پاس جانے کیلئے موقع ہوگا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ عوام میں فوری طور پر جا سکیں، شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک پی ڈی ایم کسی سنجیدہ عوامی تحریک کا فیصلہ نہیں کر سکی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں ہے، نہ ہی ایسی کوشش کر رہی ہے۔ عوام اگر حکومت سے ناراض ہیں تو اپوزیشن سے بھی مایوس ہیں، سیاسی حلقوں میں اگرچہ یہ بازگشت  اب بھی موجود ہے کہ عام انتخابات قبل از وقت 2022 میں ہو سکتے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے، اس کا کوئی جواب نہیں، آئین میں صرف دو راستے ہیں ایک وزیر اعظم خود اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کرے اور دوسرا اپوزیشن عدم اعتماد لا کر وزیراعظم کو چلتا کرے، یہ دونوں صورتیں نا ممکن دکھائی دیتی ہیں ہے،جہاں تک موجودہ مہنگائی کا تعلق ہے تو اس حال میں امید کی نظریں اپوزیشن کی طرف جاتی ہیں، لیکن مستقبل میں بھی اگر یہ اپوزیشن حکومت میں آئی تو امید نہیں رکھی جا سکتی کیوں کہ دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیاں آزمودہ ہیں، ان کے ادوار میں بھی مہنگائی کا حال مختلف نہیں تھا، موجودہ حکومت سے قیمتیں کم سہی مگر اس وقت کے لحاظ سے مہنگائی ہی تھی۔