وقت وقت کی بات

ہم جب سکول اور کالج کی زندگی انجوائے کر رہے تھے تو تب پڑھائی کی طرف اتنا رحجان نہیں تھا۔ جب ہم ساتویں میں تھے تو ہمارے سکول کو ہائی سکول کا درجہ ملا۔ اور جب ہم دسویں میں پہنچے تو ہم تقریباً پوری کلاس میں بیس یا بائیس طالب علم تھے جن میں سے چار یا پانچ طلباء نے کالج میں دخلہ لیا۔ اس کی ایک وجہ تو وہ غربت تھی کہ جو طالب علموں کو کالج کی فیسیں بھرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی اور دوسرے زمانہ ہل اور بیلوں کا تھا اس لئے گھریلو کھیتی باڑی کیلئے جس لیبر کی ضرورت تھی اس کی وجہ سے عام بچے کو دسویں تک ہی کی تعلیم کی بمشکل اجازت مل پاتی تھی۔ اس کے بعد ایک تو کالج کی فیسوں کا مسئلہ تھا کہ میٹرک تک تو تقریباً مفت ہی تعلیم تھی اور نویں دسویں میں جو فیس تھی و ہ بھی نام نہاد ہی تھی تا ہم ہم میں سے اکثر تو وہ بھی دینے کے قابل نہیں تھے اور کالج تو تھا ہی فیسوں کا جو ہمارے دور میں بہت کم لوگوں کے بس میں تھی۔ پورے ضلع ہزارہ میں ایک ہی ایبٹ آباد ڈگری کالج تھا۔ اس لئے بہت سے طالب علم میٹرک سے آگے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے اکثر ہم جماعت میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ گئے۔ کچھ نے پی ٹی سی کا رخ کیا اور کچھ اپنے کھیتوں کھلیانوں کی جانب رخ کر گئے۔ رفتہ رفتہ تعلیم کی طرف رحجان زیادہ ہوتا گیا جس کی ایک وجہ تو ہمارے ہاں زمینوں کی ناپیدگی تھی اس لئے زیادہ لوگوں نے تعلیم کو خیر آباد کہہ کے نوکری کو ہی بچاؤ کا ذریعہ سمجھا۔ بہت کم طالب علم کالج تک پہنچے اور انٹر کے بعد تو اور بھی کمی ہو گئی۔ ہم ڈگری کلاس میں کل تقریباً بیس پچیس طالب علم ہوں گے۔ اور اس سے آگے تو بات ہی اور تھی۔ ریاضی کی ایم ایس سی کلاس میں کل بارہ یا چودہ طالب علم تھے جن میں زیادہ تعداد پنجاب اور آزاد کشمیر کے طالب علموں کی تھی۔ہمارے ایم ایس سی کرنے اور کالج میں نوکری حاصل کرنے کے بعد یوں ہوا کہ کالج میں داخلے ملنے بھی مشکل ہو گئے جب کہ ہمارے ضلع (جو اب ڈویژن بن چکا ہے) میں کالجوں کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں نے زمینوں سے جان چھڑا لی ہے اور وہ زمینیں جو گندم، مکی اور دیگر فصلوں کی پیداوار دیتی تھیں اب وہاں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ اس وجہ سے زمینداری والا رحجان ہی ختم ہوگیا ہے اب بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو زمینداری کی طرف مائل ہیں اور وہ بھی مشینوں کی وجہ سے بہت کم محنت کرتے ہیں۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ شہر سے آٹا لے آئیں اوربس۔ زمینوں کی طرف توجہ ہی ختم ہو گئی ہے اس لئے وہاں سے بھی پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ زمینداری کی کمی اور آبادی کے اضافے نے لوگوں کی توجہ تعلیم کی طرف کر دی ہے اور اب یہ حال ہے کہ جس شہر میں ایک ہائی سکول تھا اور ہم آخری کلاس میں سولہ یا بیس طالب علم تھے وہاں اب تین چار ہائی سکول ہیں اور ان میں بھی داخلہ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارا ایک ضلع ہزارہ اب تین چار ضلعوں میں بدل گیا ہے اور ایک کالج کی بجائے اس میں اب آٹھ دس کالج ہو گئے ہیں مگر داخلہ ملنامشکل ہو گیا ہے۔ ہر سال بیسیوں بچے داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں جب کہ بہت سے نجی کالج بھی کا م کر رہے ہیں اور ان میں بھی داخلہ مشکل سے ہی ملتا ہے۔ سرکاری کالجوں میں تو داخلہ بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔آبادی کے بڑھوتری کے ساتھ ساتھ پڑھائی کی طرف بھی لوگوں کا بہت زیادہ رجحان ہو گیا ہے اور اب تو پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں بھی داخلے مشکل ہو گئے ہیں۔ جب کہ تقریباً ہر ڈگری کالج میں پوسٹ گریجویٹ کلاسیں بھی جاری ہیں اور اس کے باوجود بہت سے طالب علم اگلی کلاسوں کے داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تعلیم کی طرف رحجان بہت زیادہ ہو گیا اور ہر سال بہت سے طالب علم تعلیم مکمل کر کے آ رہے ہیں مگر ان کیلئے نوکریوں کا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے حکومتوں کا چاہئے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دیں ورنہ یہ لاوہ اگر پک کے باہر نکل پڑا تو بہت مشکل بن جائے گی۔ہمارے ہاں سیلف امپلائمنٹ کا نہ تو رحجان ہے اور نہ مواقع اس لئے سارے لوگ حکومت ہی کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس کیلئے نجی شعبہ بھی اگر توجہ دے تو شائد تعلیم مکمل کرنے والے لوگوں کا کچھ راستہ بن پائے۔