افغانستان کے مسائل اور پاکستان 

او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس کئی حوالوں سے اہم ثابت ہوا۔ طویل عرصے بعد پاکستان میں او آئی سی وزرائے خارجہ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔اس حوالے سے وزارت داخلہ نے سکیورٹی کے بھی قابل بھروسہ انتظامات کیے تھے۔اس اجلاس میں سعودی عرب سے لے کر نائجر تک تقریبا تمام اسلامی ریاستوں کی نمائندگی تھی،اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا افغانستان رہا۔ جہاں غربت اور بھوک و افلاس نے پنجے گاڑھ لئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کئی طرح کے مسائل سے دوچار رہا، ایک طرف خانہ جنگی تھی تو دوسری طرف افغانستان میں بارش نہیں ہوئی اور مسلسل خشک سالی سے بھی اناج کی پیداوار نہیں ہو سکی جس سے عام آدمی کے گھر فاقے آگئے تھے، تاہم اس وقت چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی موجود تھے تو کسی نہ کسی طرح معاملات زندگی چلتے رہے۔خشک سالی سے متاثرہ ملک میں طالبان کی آمد کے بعد امریکہ نے غیر انسانی رویہ اختیار کر کے افغانستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں‘ افغانستان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیئے اور امداد روک دی۔ افغانستان کی معیشت کا دارومدار امریکی امداد پر ہی رہا ہے ان سے حکومت کو مشکلات ہوئیں یا نہیں لیکن عام آدمی ضرور متاثر ہوا۔  اس لئے تو وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ امریکہ کوافغان عوام اور طالبان حکومت کو الگ الگ رکھنا چاہئے۔اس وقت وہاں صرف پاکستان اور دوسرے چند پڑوسی ممالک کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد ہی واحد سہارا ہے‘ پاکستان سے طورخم اور چمن کے راستوں سے روزانہ کی بنیاد پر امدادی سامان کے ٹرک افغانستان جا رہے ہیں‘پاکستانی وزارت خارجہ دنیا کو مسلسل اس بات سے خبردار کر رہی ہے کہ اس وقت افغانستان کو تنہا چھوڑنا 1989 سے بڑی غلطی ہو گی۔ اگر افغانستان کو غیر مستحکم کیا گیا تو طالبان حکومت دہشت گردوں پر موثر کنٹرول نہیں کر سکے گی جو خطے بلکہ دنیا کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ غربت اور بھوک کا شکار عوام دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں‘اس حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم کی ذمہ داریاں دیگر دنیا سے زیادہ ہیں‘او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس اسی احساس ذمہ داری کو باور کروانے کی کوشش تھی جس میں بڑی حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ایک ارب ریال کی امداد کے ساتھ ساتھ خصوصی فنڈز کے قیام کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ خوش آئند ہے۔اور دیکھا جائے تو افغانستان کے دکھ اور تکلیف کو مسلمان ممالک ہی سمجھ سکتے ہیں۔ امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک نے تو افغانستان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ باعث تشویش ہے، جو ایک کروڑ انسانوں کو بھوک سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کر رہی اور ممبر ممالک کو احساس دلانے میں ناکام ہے‘اس ضمن میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ طالبان کو اپنے ملک اور عوام کیلئے پاکستان سمیت دنیا کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے‘اپنے عوام کو بھوک سے بچانا بھی ان کی ذمہ داری ہے اگر چہ اس کیلئے دنیا سے امداد کا حصول بھی ضروری ہے۔ کانفرنس میں طالبان کی نمائندگی قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی اور یہ ان کیلئے ایک اہم موقع ثابت ہوا۔ انہوں نے بین الاقوامی وفود سے ملاقاتیں کیں اور جہاں ان تک اپنا موقف پہنچایا وہاں ان کے تحفظات اور آراء سے بھی آگاہی حاصل کی۔اس وقت افغانستان نازک دور سے گزر رہا ہے‘اگر چہ امن و امان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے تاہم معاشی حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ خود طالبان انتظامیہ کو بھی اس ضمن میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا ہوگا اور عالمی برادری کو بھی افغانستان کی مددکیلئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔