ہم دونوں ہم عمرتھے۔ وہ میرا چچا زا د بھائی تھا مگر اُس کوجو پیار ہمارے گھر میں ملا وہ مجھ کو کبھی نہیں مل سکا۔ بچپن میں ہم کبھی جو کھیل کھیلا کرتے تھے اُس میں اگروہ ہار بھی جاتا تو شکست مجھے ہی تسلیم کرنی پڑتی۔ بچپن میں ایک دفعہ یوں ہوا کہ ہم دونوں نے ”شیر خط“ کھیلا تو میں نے اُس سے دوآنے جیت لئے۔ وہ روتا ہو ا گھر آیا اور میری امی سے کہا کہ یحییٰ نے میرے دو آنے لے لئے ہیں۔ مجھ سے جو امّی جان نے پوچھا تو میں نے کہا کہ میں نے اس سے چھینے نہیں ہیں میں نے اس سے جیتے ہیں۔ امی نے پوچھا کہ کیسے جیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہم نے ”شیرخط“کھیلا تھا اس میں میں نے اس سے دو آنے جیتے ہیں۔ امی جان نے کہا کہ تو نے جوا کھیلا ہے۔ میں نے کہا کہ جو ا تو نہیں کھیلا شیر خط کھیلا ہے۔ امی نے کہا کہ اسے ہی تو جوا کہتے ہیں۔ سو مجھ سے وہ دوآنے بھی واپس کئے گئے اور اس کے ساتھ جوجوئے کی مد میں میری درگت بنی اس سے میر ا منہ کافی دن تک سوجا رہا مگرا س کو ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ساری زندگی میں جوئے سے دور رہا۔ جب ہم ایم ایس سی میں تھے تو اکثر وقت گزاری کیلئے تاش کھیلاکرتے تھے۔ ہمارے ساتھکچھ لڑکے تھے جو جوا کھیلا کرتے تھے۔ ہم سے بھی ایک بار کہا کہ کچھ لگا کر کھیلتے ہیں۔ میں نے کہاکہ یار میں جوا نہیں کھیلتا۔ یہ اُس سے دو آنے جیتنے کی پاداش میں میرے ساتھ امی جان نے کیا اُس نے مجھے جوئے سے ہمیشہ کیلئے دور رکھا۔ یہ اُس سے ایک دونی جیتنے کے سبب جو میرے ساتھ سب کچھ ہوا کہ مجھے جوئے سے سخت نفرت ہوئی اور اب بھی ہے۔ہم نے ایف اے کیا تو وہ اس سے آگے پڑھنے سے انکار کر گیا اور سی ٹی کرنے کے بعد بچوں کو پڑھانے میں مشغول گیا۔ دریں اثنا ا‘س نے پرایؤیٹ طور پر ایم اے بھی کر لیا۔ وہ ایک اچھا استاد ثابت ہوا کہ میں نے ہمیشہ اُسکے شاگردوں سے اُس کے بارے میں اچھے الفا ظ ہی سنے۔ جن طلباء نے ان سے پڑھا ہے انہوں نے ہمیشہ ان کا تذکرہ ایسے الفاظ میں کیا ہے کہ جنہیں سن کر کوئی فخر محسوس کرتا ہے استادی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں طلباء کی کردار سازی پر بھرپور توجہ دی جائے تو اس کے نتائج بہت ہی مختلف سامنے آتے ہیں اور وہ ایسے ہی اساتذہ میں سے تھے جن کے ساتھ ملنے کے بعد طلباء محسوس کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں تبدیلی آگئی ہے۔ وہ میرا چچازاد تو تھا ہی مگر ایک اور رشتے نے ہمیں ایک لڑی میں پرو دیا کہ وہ میرا بہنوئی بھی بن گیا۔ دریں اثنا اُس پر کئی دفعہ بیماری کے حملے بھی ہوئے یہاں تک کہ میں ساری ساری رات ہسپتال میں اُس کے بیڈ کے ساتھ بیٹھ کر گزارتا رہا۔ مگر ہر دفعہ اُس نے بیماری کو مات دی۔ یو ں لگتا تھا کہ بیماری کے ساتھ اُس کی دوستی ہو گئی ہے۔ سال میں ایک دو دفعہ ضرور ہی اُس نے ہاسپیٹلائز ہونا ہوتا تھا مگر ہر دفعہ وہ بیماری کو مات دیتا رہا۔ میں سردی کی وجہ سے اپنے بچے کے ساتھ کہ جو اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر ہے ملٹی گارڈن اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں کہ ایبٹ آباد میں زیادہ سردی کی وجہ سے میں وہاں رہ نہیں سکتا کہ مجھے سانس کی بیماری ہے۔ جو ٹھنڈ میں زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ مجھے اطلاع ملی کہ وہ پھر بیمار ہو گیا ہے۔ میں نے سمجھا کہ جس طرح وہ ہر دفعہ بیماری کو مات دے دیتا ہے اس دفعہ پھر وہ اسے مات دے دے گا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکااور وہ مجھے اکیلا چھوڑکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کے جنازے میں اُس کے شاگرد بھی آئے ہوئے تھے اور مجھ رشک ہورہا تھا کہ اس نے اس قدر محبت کرنے والے شاگرد پال رکھے ہیں کہ جو اس کی جنازے میں شریک ہونے آئے ہیں اور سارے ہی آب دیدہ ہیں۔اور سوچ رہا تھا کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ استاد کی ریسپیکٹ کم ہو گئی ہے۔ اگر اُستاد ہو توبچے آج بھی اُسے ریسپیکٹ دیتے ہیں۔ اب بھی اگر اساتذہ طلباء کو صرف تعلیم سے بہرہ ور نہ کریں بلکہ ان کو ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی دیں تو وہ ایسے اساتذہ کو ضرور یاد رکھیں گے اور ان کی یادوں کو اپنے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائیں گے حقیقت یہ ہے کہ وہی اساتذہ ذہنوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جو طلباء کو پڑھانے میں خلوص نیت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور وقت گزارنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔