کھیل کوئی بھی ہو اس میں جیت اور ہار تو کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ اب یہ کہنا کہ ہم کیوں ہارے ہیں ایک ایسا سوال ہے کہ جو اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور ان کو دور کرنے کی ضروت کا متقاضی ہوتا ہے۔ لوگ بہت سی غلطیاں ایسی کرتے ہیں کہ جن کو وہ تو غلطی نہیں مانتے مگر دنیا مانتی ہے او رجب دوبارہ وہی کھیل ہوتا ہے تو جیتنے والے ہار جاتے ہیں اور یہ اکثر ہوتا ہے‘جب تک آپ میں اعتماد ایک حد تک رہتا ہے تو آپ جیت کی طرف اس طرح جاتے ہیں کہ آپ ہار کو بھی ذہن میں رکھتے ہیں اور اگر ہار جاتے ہیں تو صدمہ نہیں ہوتا‘اس لئے کہ ہار کو بھی آپ کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مگر جب آپ کی خود اعتمادی زیادہ ہو جاتی ہے توآپ ہار کا ماننا چھوڑ دیتے ہیں اور جب ایسے میں آپ ہارتے ہیں تو آپ کا صدمہ بہت زیادہ ہو جاتاہے۔ اس لئے کہ آپ ہار کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور جب ہار کا صدمہ اس صورت میں پہنچتا ہے تو وہ ناقابل یقین ہوتا ہے۔ جب آپ ہار کو بھی کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں تو آپ کو ہارنے کا اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ اتنا جائزہ لیں کہ مجھ سے کوتاہی کہاں ہوئی ہے تو بات ٹھیک ہے مگر جب آپ بات کو یہاں تک لے جاتے ہیں کہ مجھے تو ہارنا ہی نہیں چاہئے تھا تو بات بگڑ جاتی ہے۔ اس لئے کہ جو دوسرا شخص آپ کے مقابلے میں ہے اُسے بھی جیتنے کا اتنا ہی حق ہے کہ جتناآپ کو ہے۔ اس لئے آپ اپنی ہار کو مان لیں تو بہتر ہے۔ کھیل میں یہ سب سے بڑی بات ہوتی ہے کہ آپ جتنا جیتنے کی امید رکھتے ہیں اتنا ہی ہارنے کو بھی ذہن میں رکھیں۔ اس طرح آپ کو ہارنے کا صدمہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جو بھی آپ کے مقابلے میں ہے اُس نے بھی جیتنے کی اتنی ہی امید لگا رکھی ہے کہ جتنی آپ نے لگا رکھی ہے اور یہ تو ماننے والی بات ہے کہ جب دو کھلاڑی میدان میں اترتے ہیں تو جیتتا وہی ہے کہ جس کا وہ د ن ہوتاہے۔ اس لئے کھیل میں جیت اور ہار کو برابر کا ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ جب ہار جائیں تو اپنی کوتاہیوں کو دیکھیں اور دوسری دفعہ کی تیار ی کریں اور ان غلطیوں کو نہ دہرائیں کہ جو آپ کوہارنے والی دفعہ میں ہوئی ہیں اور ہار کو کبھی سینے سے نہ لگائیں۔ اس سے انسان میں فرسٹریشن نہیں ہوتی اور انسا ن نارمل رہتا ہے اور دوسری دفعہ کی منصوبہ بندی ٹھنڈے دماغ سے کرتا ہے اور جیت جاتا ہے۔ مگر جب دماغ میں ”کیوں“ کو ڈالتا ہے تو پھر مناسب منصوبہ بندی کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور یوں ناکامی کو اپنا مقدربنا لیتا ہے۔ جب آپ کسی بھی کام کو ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر کرتے ہیں تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ بات وہاں بگڑتی ہے کہ جب آپ خود کو دونوں صورتوں کے لئے تیار نہیں رکھتے ہیں۔ ایک پارٹی کی ہار کو اس طرح نہیں لینا چاہئے کہ اُسے ہارنا ہی نہیں چاہئے تھا۔اس لئے کہ جب آپ الیکشن لڑتے ہیں تو بحیثیت انچارج آپ سے کچھ غلطیاں ہوتی ہیں۔ اس سے آپکے امیدوار ہار جاتے ہیں اور آپ کو وہ کامیابی نہیں ملتی جو ملنی چاہئے تھی۔ اب اگر آپ حوصلے سے اپنی ہار کو مان جاتے ہیں تو ٹھیک اور اگر نہیں مانتے تو گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کابڑا عمل دخل ہے کہ ہم ہار نہیں مانتے۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ جس کا مقابلہ آپ کے ساتھ ہے وہ بھی اُسی طرح جیت کا امیدوار ہے کہ جس طرح آپ ہیں اور یہ منصوبہ بندی کی بات ہے کہ آپ کی منصوبہ بندی مخالف سے بہتر ہے یا اُس کی منصوبہ بندی آپ سے بہتر ہے۔ اب جس کی بھی منصوبہ بندی بہتر ہو گی وہ جیت جائے گا اور جس کی منصوبہ بندی کمزور ہو گی وہ ہار جائے گا۔ صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو بھی ہارتا ہے وہ جیتنے والے کو مبارک باد دے۔